اسلام آباد(پی این آئی )لاہور کو باغات کا شہر کہا جاتا ہے کیونکہ یہاں مغلیہ اور برطانوی ادوار میں بنائے گئے قدیم باغات اب بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔یہاں شالیمار باغ، لارنس گارڈن، اقبال پارک، ریس کورس اور جلو پارک جیسے مشہور پارکس بھی ہیں۔ انھی پارکس میں لاہور کا گلشن اقبال پارک بھی شامل ہے جو گذشتہ چند گھنٹوں سے سوشل میڈیا پر موجود صارفین کے تبصروں کا حصہ بن رہا ہے اور اس کی وجہ ہے یہاں حال ہی میں نصب کیا جانے والا شاعر علامہ محمد اقبال کا
مجسمہ۔بہت سے صارفین کا کہنا ہے کہ نصب کیا گیا یہ مجسمہ کسی طرف سے بھی علامہ محمد اقبال کی ان تصاویر جیسا نہیں دکھتاجو وہ بچپن سے دیکھتے آئے ہیں جبکہ بعض صارفین نے تو اس مجسمے سے ملتے جلتے چہروں کو ڈھونڈنا شروع کر دیا تاکہ معلوم ہو سکے کہ یہ مجسمہ آخر ہے کس کا۔ٹوئٹر سمیت سوشل میڈیا پر گلشن اقبال پارک میں علامہ اقبال کا مجسمہ اس وقت زیر بحث آیا جب ایک صارف نے اس مجسمے سے متعلق اپنا تبصرہ پیش آیا۔بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق لیلیٰ طارق نے لکھا کہ یہ ہے گلشن اقبال لاہور میں اقبال کا مجسمہ۔ اس مجسمے میں کوئی برائی نہیں سوائے اس کے کہ یہ بالکل اقبال جیسا نہیں دکھتا۔اس ٹویٹ کے جواب میں سینکڑوں افراد نے ردعمل دیتے ہوئے ان کی رائے سے اتفاق کیا۔ماریہ سرتاج نے لکھا کہ ایک لمحے کے لیے مجھے لگا کہ یہ مجسمہ موئن جو دڑو کے کسی بادشاہ کا ہے۔ مجسمہ ساز کو اس کی جگہ بدلنے کی ضرورت ہے۔ دوسری طرف شاہرام نے سوال پوچھا کہ روسی حکمران سٹالن کا مجسمہ لاہور میں کیا کر رہا ہے۔طارق احسن نے تبصرہ کیا کہ یوں معلوم ہوتا ہے جیسے مجسمہ ساز نے (جرمن فلسفی) نطشے کے خیالات پر اقبال کی تشریح میں بدھا کو زبردستی گھسا دیا ہے۔کئی صارفین نے تو اسے فٹبالر کرسٹیانو رونالڈو کے مجسمے سے تشبیہ دیتے ہوئے یہ رائے اختیار کی کہ ان کی طرح اقبال کا مجسمہ بناتے ہوئے بھی کاریگر سے بظاہر غلطی ہوئی ہو گی۔یاد رہے کہ پرتگال کے جزیرے مادیرا میں نامور فٹبالر کے مجسمے کی پردہ کشائی کے بعد شائقین فٹبال نے اس پر اپنے تحفظات ظاہر کیے تھے۔لیکن ایسا نہیں کہ یہ مجسمہ کسی کو پسند نہیں آیا۔ الف سیمل نامی صارف لکھتی ہیں کہ کیا میں واحد شخص ہوں جسے یہ مجسمہ اچھا لگا ہے؟ مگر ان کی پوسٹ سے واضح ہو رہا ہے کہ شاید انھوں نے ایسا طنزیہ کہا ہے۔مگر آرنلڈ نامی صارف نے واقعی یہ بات طنزیہ ہی کی ہو گی کہ سننے میں آ رہا ہے کہ علامہ اقبال کا یہ مجسمہ بنانے والے کاریگروں کے ہاتھ کاٹے جائیں گے تاکہ وہ دوبارہ ایسا شاہکار تخلیق نہ کر سکیں۔عمیر ابراہیم نے لکھا کہ اکثر لوگ زیادہ دھیان اس مجسمے کے چہرے پر دے رہے ہیں جبکہ زیادہ پریشان کن بات منہ سے نکلتا ہوا ہاتھ ہے۔ ان کی طرح کئی افراد نے مجسمے کے قلم پکڑنے کے اس انداز پر مزاحیہ تبصرے کیے ہیں۔برکت خٹک نے اپنے ٹویٹ میں لکھا کہ اقبال زندہ ہوتے تو ایک شکوہ اور لکھتے. اسی طرح خرم شہزاد کہتے ہیں کہ اقبال کا شکوہ تو آج بنتا ہے۔سوشل میڈیا پر بہت سے لوگ اس حوالے سے سوال پوچھ رہے ہیں کہ یہ مجسمہ کس نے بنایا ہے؟صحافی حامد میر نے لکھا کہ کیا یہ کہیں سے بھی شاعر مشرق کا مجسمہ نظر آتا ہے۔۔۔ مجھے تو یہ مجسمہ دیکھ کر بہت افسوس ہوا ہے۔بہت سے لوگوں نے حامد میر کی طرح اس کاریگر یا مجسمہ ساز پر تنقید کی ہے۔تاہم مقامی ذرائع ابلاغ کے مطابق پارکس اینڈ ہارٹیکلچرلاہور نے وضاحت کی ہے کہ یہ مجسمہ کسی پیشہ ور مجسمہ ساز نے نہیں بنایا۔پی ایچ اے سے منسوب ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ علامہ اقبال کا یہ مجسمہ مالیوں نے خود سے تخلیق کیا مگر اب اسے بہتر انداز میں پیش کرنے کے لیے کسی ماہر مجسمہ ساز کی خدمات لینے پر غور کیا جا سکتا ہے۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں