اسلام آباد(پی این آئی)پبلک اکائونٹس کمیٹی کی ایک ذیلی کمیٹی کی دستاویز سے پہلی مرتبہ نیب کا موقف سامنے آیا ہے کہ کیسے اور کس کی سفارش اور منظوری سے ایسے شخص کو ڈیڑھ ملین ڈالرز ادا کیے گئے جو بعد میں براڈ شیٹ ایل ایل سی کا جعلی نمائندہ ثابت ہوا۔ روزنامہ جنگ میں انصار عباسی کی شائع خبر کے مطابق آڈیٹر جنرل کی جانب سے کیے گئے آڈٹ پیرا کے
اعتراض پر نیب نے یہ جواب پبلک اکائونٹس کمیٹی میں جمع کرایا تھا۔ اس دستاویز کو دیکھ کر معلوم ہوتا ہے کہ بیورو کی جانب براڈشیٹ (کولراڈو) کو اس وقت کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی منظوری سے ادائیگی کی گئی تھی لیکن اس معاملے پر اس وقت کے وزیر قانون (فاروق نائیک)، اس وقت کے چیئرمین نیب (نوید احسن) اور بین الاقوامی قانون کے ماہر (احمر بلال صوفی) کے درمیان براہِ راست رابطہ تھا۔ براڈشیٹ (کولراڈو) کے ساتھ تصفیہ کیلئے مذاکرات براڈشیٹ ایل ایل سی کے نمائندے جیری جیمز اور احمر بلال صوفی کے درمیان ہوئے تھے۔ دستاویز کے مطابق، نیب اور براڈشیٹ کے درمیان ہونے والا معاہدہ احمر بلال صوفی نے لکھا تھا۔ اس میں مزید لکھا ہے کہ اس وقت کے وزیراعظم کی منظوری سے براڈشیٹ ایل ایل سی اور آئی اے آر (انٹرنیشنل ایسیٹ ریکوری) کے ساتھ تصفیہ کے معاہدے پر عمل بالترتیب 20 مئی 2008 اور 2 جنوری 2008 کو ہوا تھا۔ اس معاہدے پر حکومت پاکستان اور جیری جیمز نے دستخط کیے تھے۔ جیسا کہ پہلے بتایا گیا تھا، تصفیہ کے معاہدوں کی توثیق وزارت قانون و انصاف نے کی تھی۔ دستاویز کے مطابق، نیب نے براڈشیٹ (جبرالٹر) اور براڈشیٹ ایل ایل سی (کولراڈو) کو ڈیڑھ ملین ڈالرز جبکہ آئی اے آر کو 2.2 ملین ڈالرز ادا کیے تھے اور اس کی منظوری اس وقت کے وزیراعظم اور وزارت قانون و انصاف نے دی۔ یہ معاملہ حال ہی میں یعنی گزشتہ سال ستمبر میں اس وقت سامنے آیا تھا جب ریاض فتیانہ کی زیر قیادت پبلک اکائونٹس کمیٹی کی ذیلی کمیٹی ، نے پیرا کی سنگینی کے باوجود اسے طے کر دیا لیکن اب پی اے سی اس معاملے کو دوبارہ دیکھ رہی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ چند روز قبل اسپیکر قومی اسمبلی نے پی اے سی کے چیئرمین رانا تنویر کو بتایا کہ براڈشیٹ کا معاملہ کمیٹی میں نہیں اٹھایا جا سکتا۔ اسپیکر اور پی اے سی کے چیئرمین کے درمیان حالات و واقعات کیسے سامنے آتے ہیں یہ تو آنے والے دنوں میں پتہ چلے گا لیکن جو کچھ پی ا ے سی کی دستاویز میں لکھا ہے اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ماضی میں اس معاملے پر کیا کچھ ہو چکا ہے۔ 2008-09 کے آڈٹ میں، اے جی پی نے اپنے آڈٹ مشاہدات میں
اعتراض اٹھایا تھا: کمپنی کے ساتھ کیے جانے والے معاہدے میں نقائص تھے۔ یہ بات سیکریٹری فنانس کی 20 مئی 2007 کی سمری کے پیرا نمبر 13 سے معلوم ہوتی ہے جس میں لکھا ہے کہ یہ خصوصاً یکطرفہ معاہدہ ہے۔ شق نمبر 4.1 میں نیب کو پابند بنایا گیا ہے کہ وہ کمپنی کی کام کرنے یا نہ کرنے کے باوجود اسے حصہ دے گی۔ یہ مشاہدہ بھی پیش کیا گیا تھا کہ غیر ملکی کمپنیوں کے ساتھ معاہدہ کرتے وقت نیب اور حکومتِ پاکستان کے مفاد کا تحفظ نہیں کیا گیا تھا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ
کمپنی بھاری مالی دعوے کرنے لگی۔ حقیقت یہ ہے کہ مذاکرات کے باوجود قومی خزانے سے 3.7 ملین ڈالرز کی ادائیگی کرنا پڑی اور اس کا کوئی فائدہ بھی نہیں ہوا۔ اس آڈٹ پیرا کے جواب میں نیب نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ ان کمپنیوں کی خدمات پاکستان سے افراد یا اداروں کی طرف سے لیجائے جانے والے یا منتقل کیے جانے والے اثاثہ جات اور فنڈز کا سراغ لگانے اور ان کی
ریکوری کیلئے حاصل کی گئی تھی۔ نیب کے پاس ان کمپنیوں کے ساتھ معاہدہ کرنے کی کئی وجوہات تھیں۔ پہلی، حکومت پاکستان اور نیب نے اس وقت غیر ملکی حکومتوں سے ایسے باضابطہ تعلقات قائم نہیں کیے تھے کہ مسابقتی معاملات میں تعاون حاصل کیا جا سکے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اس وقت کرپشن کو دنیا بھر میں ترجیحی مسئلے کے طور پر نہیں دیکھا جاتا تھا لہذا
بین الاقوامی تعاون کی فوری ضرورت نہیں تھی۔ تیسری بات یہ ہے کہ اتفاقیہ تھا اور اس کیلئے کوئی پیشگی ادائیگی نہیں کی گئی تھی اور کوئی اضافی اخراجات بھی نہیں کیے گئے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ نیب نے معاہدے کی دیگر شقوں پر اتفاق کیا جو سازگار نہیں تھیں۔ نیب اور ان کمپنیوں کے درمیان مذاکرات کے کئی ادوار ہوئے یہ کمپنیاں حتمی تصفیہ کیلئے رضامند ہوگئیں۔
نیب کے جواب میں آڈٹ والوں نے یہ تبصرہ کیا: آڈٹ شعبہ اپنی بات پر قائم ہے کہ چونکہ مناسب طرز عمل اختیار نہیں کیا گیا لہذا نیب کو بڑے دعوے کی ادائیگی کرنا پڑی۔ آڈٹ والوں کو یہ نہیں بتایا گیا کہ ان کمپنیوں نے کیا ریکوری کی ہے جن کے عوض انہیں اتنی بھاری رقوم کی ادائیگی کی گئی۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ کوئی محتاط میکنزم موجود نہیں جس سے ان کمپنیوں کے
کام کرنے کے انداز اور کارکردگی کا جائزہ لیا جا سکے۔ آڈٹ اعتراضات اور نیب کے موقف کے بعد، ڈی اے سی کے 22 اپریل 2009 کو ہونے والے اجلاس میں اتفاق کیا گیا کہ اس پیرا پر پی اے سی میں بات ہوگی۔ جب یہ معاملہ پی اے سی میں اٹھایا گیا تو نیب نے اپنا جواب پیش کیا۔ ذیل میں نیب کے جواب کے اہم نکات پیش کیے جا رہے ہیں۔ چونکہ ان کمپنیوں
(براڈشیٹ ایل ایل سی اور آئی اے آر) کی کارکردگی اطمینان بخش نہیں تھی اس لئے تین سال بعد نیب نے برطانیہ میں موجود اپنے وکیلوں، کینڈل فری مین ، کے توسط سے 28 اکتوبر 2003 کو معاہدہ ختم کرنے کا فیصلہ کیا۔ تاہم، معاہدے کی تنسیخ سے قبل، مذکورہ کمپنیوں نے میاں نواز شریف، سلطان لکھانی، شون گروپ، ایڈمرل منصور الحاق، عامر لودھی، فوزی الکاذمی، آفتاب شیرپائو،
جمیل انصاری، آصف زرداری کے سوئس اکائونٹس اور دیگر کیسز کے حوالے سے معلومات فراہم کیں۔ براڈشیٹ ایل ایل سی (آئیل آف مین) کے مبینہ چیئرمین مسٹر جیری جیمز نے نیب کو ثالثی کے نوٹسز بھیجے کہ براڈشیٹ ایل ایل سی کا حصہ اور ہرجانہ ادا کیے جائیں۔ انہوں نے یہ کیس انسٹی ٹیوٹ آف آربیٹریٹرز میں جمع کرایا۔ نیب کو اس وقت تک پہلے ہی آئی اے آر کی
طرف سے مئی 2006 میں ثالثی کے نوٹس بھیجے گئے تھے۔ 2007-08 میں احمر بلال صوفی اور حکومت کے دیگر سینئر وکیلوں نے رائے دی کہ ایسیٹ ریکوری ایگریمنٹ (جون 2000) کی کچھ شقوں سے شاید براڈشیٹ کو فائدہ ہو۔ اس کے بعد یہ فیصلہ ہوا کہ معاملہ عدالت سے باہر طے کیا جائے تاکہ اخراجات بچائے جا سکیں۔ چونکہ اس وقت تک پراسیکوٹر جنرل احتساب
(پی جی اے) کا تقرر نہیں ہوا تھا اسلئے وزیر قانون و انصاف (فاروق نائیک)، چیئرمین نیب (نوید احسن) اور احمر بلال صوفی کے درمیان اس معاملے پر براہِ راست روابط تھے۔ براڈشیٹ (کولراڈو) کے ساتھ تصفیے کیلئے مذاکرات جیری جیمز اور احمر بلال صوفی کے درمیان ہوئے۔ نیب اور براڈشیٹ کے درمیان معاہدے کا مسودہ احمر بلال صوفی نے تحریر کیا۔ وزارت قانون نے اس کی توثیق کی۔ اس وقت کے وزیراعظم کی منظوری کے بعد براڈشیٹ اور آئی اے آر کے
درمیان بالترتیب 20 مئی 2008 اور 2 جنوری 2008 کو معاہدہ ہوگیا۔ اس پر حکومت پاکستان کے نمائندوں اور جیری جیمز نے دستخط کیے۔ اس طرح وزیراعظم اور وزارت قانون و انصاف کی منظوری سے حکومت پاکستان اور نیب نے براڈشیٹ (جبرالٹر) اور براڈشیٹ (کولراڈو) کو ڈیڑھ ملین ڈالرز جبکہ آئی اے آر کو 2.2 ملین ڈالرز کی ادائیگی کی۔ حکومت پاکستان اور نیب نے آئی اے آر کو 2.2 ملین ڈالرز کی ادائیگی کی جو کامیاب رہی کیونکہ یہ معاملہ ہمیشہ کیلئے ختم ہوگیا۔ ادائیگی
جیری جیمز کو کی گئی جس نے خود کو براڈشیٹ ایل ایل سی کا جائز مالک بیان کیا۔ تاہم جیری جیمز 2011 میں انتقال کر گیا۔ براڈشیٹ (آئیل آف مین) کے ڈیٹر (Debtor) نے کمپنی کو بحال کرنے کی کوشش کی جس کی منظوری ہائی کورٹ آف جسٹس آئیل آف مین نے دی۔ اسی کمپنی نے حکومت پاکستان اور نیب پر اس بنیاد پر مقدمہ کر دیا کہ حصہ کی ادائیگی کی ہی نہیں گئی اور
اس طرح براڈشیٹ نے حکومت پاکستان اور نیب کیخلاف واجبات کی ادائیگی کیلئے مقدمہ کر دیا۔ ادائیگی کے وقت پاکستان میں براڈشیٹ کے نمائندے مسٹر طارق فواد ملک اور براڈشیٹ ایل ایل سی (کولراڈو) کے مبینہ مالک جیری جیمز نے یقین دہانی کرائی تھی کہ تمام واجبات اور بقایہ جات ادا ہو چکی ہیں لہذا حکومت پاکستان کیخلاف اب کوئی دعوی نہیں کیا جائے گا۔ حکومت پاکستان / نیب مسٹر جیری جیمز کی یقین دہانی کے حوالے سے کولراڈو (امریکا) میں اس کی جائیداد جبکہ
طارق فواد ملک کے توسط سے متحدہ عرب امارات میں مقدمہ بازی میں مصروف ہے۔ نیب کے جواب کے بعد 28 ستمبر 2020 کے اجلاس میں ڈی اے سی نے بتایا کہ ڈی اے سی کو 3.7 ملین ڈالرز کی ادائیگی کے حوالے سے ریکارڈ فراہم کیا گیا، یہ ادائیگی تصفیہ کے معاہدے کے بعد کی گئی تھی جس کیلئے منظوری صدر پاکستان نے سیکریٹری فنانس ، پرنسپل سیکریٹری ٹو پرائم منسٹر، سیکریٹری داخلہ، سیکریٹری قانون اور اٹارنی جنرل آف پاکستان پر مشتمل کمیٹی کے مشورے کے بعد
دی۔ تاہم، معاہدے کی شق نمبر 4.2 میں نقص تھا جس کی وجہ سے نیب کو معاہدے کی تنسیخ پر رقم کی ادائیگی کرنا پڑی۔ یہ پیرا پی اے سی کے روبرو پیش کیا گیا ہے۔ ریاض فتیانہ کی زیر قیادت پی اے سی کی ذیلی کمیٹی کا اجلاس 30 ستمبر 2020 کو ہوا جس میں فیصلہ کیا گیا کہ کمیٹی نے پیرا کا معاملہ طے کر دیا ہے۔ ایک ذریعے کے مطابق، اس کا مطلب یہ ہوا کہ حکومت نہیں چاہتی کہ براڈشیٹ کا معاملہ پی اے سی میں زیر بحث آئے۔ قومی اسمبلی کے اسپیکر کی جانب سے پبلک اکائونٹس کمیٹی کے چیئرمین کو اس معاملے پر دی جانے والی تازہ ترین ہدایت سے بھی یہ بات ثابت ہو جاتی ہے۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں