مولانا فضل الرحمن کوطاقتور حلقوں کا خصوصی پیغام مل گیا پی ڈی ایم سربراہ نے اپنا فیصلہ بھی سنا دیا

اسلام آباد (پی این آئی)گزشتہ روز پی ڈی ایم کی قیادت کو مولانا فضل الرحمان کی جانب سے ایک ”پیغام“ کے حوالے سے آگاہ کیا گیا ہے جو انہیں مقتدر حلقے سے ملا ہے کہ وہ سیاسی معاملات میں مداخلت نہیں کریں گے جن میں وہ نام بھی شامل ہیں جو اپوزیشن اتحادکے زیر غور رہے ہیں۔روزنامہ جنگ میں انصار عباسی کی شائع خبر کے مطابق اجلاس میں شرکت کرنے والے

ایک قابل بھروسہ ذریعے نے بتایا ہے کہ مولانا فضل الرحمان نے پی ڈی ایم قیادت کو بتایا ہے کہ طاقتور حلقے کی جانب سے انہیں بھی پیغام بھیجا گیاہے۔یہ بھی بتایا گیا کہ مولانا سے ملاقات کیلئے بھی خواہش کا اظہار کیا گیا تھا لیکن انہوں نے کہا کہ اب یہ بیکار ہے۔ تاہم، عمران خان کی حکومت کو نکال باہر کرنے کیلئے تشکیل دیا جانے والا اپوزیشن اتحاد اپنے اعلانیہ مقصد کے حصول کیلئے حکمت عملی کے معاملے پر منقسم رہا۔ اس بات کی اطلاعات ہیں کہ پی ڈی ایم میں تقسیم کیلئے بیرونی اثر رسوخ ا ستعمال کیا گیا۔ پیپلز پارٹی کی جانب سے بار بار اختیار کیا جانے والا موقف ایک طرف اور دوسری طرف نواز اور مولانا کے اتحاد کی وجہ سے اپوزیشن کی تحریک کو بڑا دھچکا لگا ہے اور حالات اس نہج کی طرف تیزی سے بڑھ رہے ہیں جب اپوزیشن کا اتحاد غیر موثر ہو جائے گا۔پی ڈی ایم کے کچھ رہنماؤں کے ساتھ پس منظر میں ہونے والی بات چیت سے معلوم ہوتا ہے کہ پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں بالخصوص پیپلز پارٹی اور جے یو آئی (ف) کے درمیان عدم اعتماد بڑھ رہا ہے۔ان جماعتوں کو شک ہے کہ آصف زرداری نے نیا موقف اختیار کر لیا ہےکیونکہ انہیں درست حلقوں کی جانب سے کچھ ٹھوس یقین دہانیاں کرائی گئی ہیں۔ رابطہ کرنے پر پیپلز پارٹی کے ایک اہم رہنما سے جب یہ پوچھا گیا کہ مسٹر زرداری کیا چاہتے ہیں؟ تو انہوں نے بڑا قہقہہ لگایا۔انہوں نے پیپلز پارٹی اور اہم حلقے کے درمیان کسی پس پردہ معاہدےکے حوالے سے تصدیق یا تبصرہ کرنے سے گریز کیا لیکن ان کا اصرار تھا کہ مسٹر زرداری کی سوچ روزِ اول سے ہی آئینی طریقہ کار اختیار کرنا تھی جس میں حکومت کو نکال باہر کرنے کیلئے عدم اعتماد کا ووٹ جیسے آپشن شامل ہیں۔کہا جاتا ہے کہ اسمبلیوں سے استعفیٰ پیپلز پارٹیکیلئے آپشن نہیں اور نون لیگ

اور جے یو آئی (ف) کے برعکس پیپلز پارٹی کو سندھ حکومت سمیت بہت کچھ کی قربانی دینا پڑے گی اور یہ مسٹر زرداری کی رائے میں معمولی فائدے کیلئے بہت بڑی قیمت چکانے جیسا ہے۔پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں کی جانب سے مشترکہ استعفےدینے کی صورت میں اگر عمران خان کی حکومت گر بھی گئی تو نئے انتخابات ہوں گے۔ایسی صورتحال میں کیا پیپلز پارٹی مرکز،

پنجاب، کے پی کے اور بلوچستان میں الیکشن جیتنے کے قابل ہوگی؟ کہا جاتا ہے کہ زرداری کو یقین ہے کہ اس موقع پر ان کی پارٹی کو اس حصےسے ز یادہ فائدہ نہیں ہوگا جو اسے سندھ میں پہلے ہی حاصل ہے اور ممکن ہے کہ نئے انتخابات کی صورت میں پیپلز پارٹی مزید کمزور ہو جائے۔پیپلز پارٹی کے ذریعے کا کہنا تھا کہ اگر یہی صورتحال ہے تو ہم وہ کام کیوں کریں جس سے

صرف نون لیگ کا فائدہ ہوگا اور یہی وجہہے کہ مسٹر زرداری پنجاب اور مرکز میں اسمبلیوں کے ذریعے تبدیلی کے ایجنڈے پر عمل کر رہے ہیں۔اس صورتحال کے باوجود بھی پیپلز پارٹی میں کئی لوگوں کو شک ہے کہ اسمبلیوں کے ذریعے آنے والی تبدیلی طاقتور حلقوں کی مکمل حمایت سے ممکن ہو بھی سکے گی یانہیں۔زرداری نے پہلے ہی پی ٹی آئی میں شامل اتحادیوں کو اپنی طرف راغب کرنے کیلئے اپنے ساتھیوں کو کام پر لگا رکھا ہے۔ لیکن کہا جاتا ہے کہ یہ مشق بھی

اس وقت تک بیکار ثابت ہوگی جب تک طاقتور طبقہ فیصلہ کن کردار ادا نہیں کرتا۔دلچسپ بات یہ ہے کہ اسمبلیوں سےمشترکہ استعفوں کی حامی جماعت نون لیگ جو بظاہر متحد نظر نہیں آتی ہے لیکن اپنے اس طرز عمل کے معاملے میں وہ بھی منقسم ہے۔عوام میں یہ لوگ ممکن ہے کہ اپنے اختلافات ظاہر نہ کر رہے ہوں لیکن ان کی پس پردہ بات چیت میں یہ لوگ اصرار کرتے ہیں کہ مشترکہ استعفے منطقی سیاسی فیصلہ نہیں اور اگر پیپلز پارٹی ساتھ دینے سے ہچکچاتی ہےتو یہ نون لیگ کیلئے

تباہ کن سیاسی فیصلہ ثابت ہوگا۔ پارٹی لیکن یہ بھی سمجھتی ہے کہ نواز شریف اور مریم نواز پارٹی کے ووٹروں کیلئے پرکشش ہیں۔ان میں سے کئی یہ بھی سمجھتے ہیں کہ ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی طرف حال ہی میں اختیار کردہ سخت موقف کی پالیسی نے نہصرف پارٹی کیلئے مسائل پیدا کیے ہیں بلکہ اس کی ساکھ بھی خراب کی ہے۔ ممکن ہے کہ اسی وجہ سے یا پھر پس پردہ ہونے والے مذاکرات کی وجہ سے مریم نواز کا لب و لہجہ نرم ہوتا نظر آ رہا ہے اور اب انہوں نے عمران خان کا

معاملہ عدالت میں لانے کا اعلان کیا ہے کہ انہوںنے آرمی کے ادارے کو بدنام کیا ہے۔دو دن قبل، خواجہ آصف کی گرفتاری کے بعد انہوں نے اشارتاً کہا ہے کہ ”دو اہم شخصیات“ نے خواجہ آصف سے کہا تھا کہ نواز شریف کا ساتھ چھوڑ دیں ورنہ نتائج بھگتنے کیلئے تیار ہو جائیں۔لیکن خواجہ آصف نے معنوی انداز سے مریم کی کہیہوئی بات کی نفی کی اور اپنی گرفتاری کا ذمہ دار عمران خان کو قرار دیا۔ نون لیگ کے ایک ذریعے کے مطابق، نواز شریف اور مریم کی جانب سے

اسٹیبلشمنٹ کی شخصیات کیخلاف سخت لب و لہجے سے عمران خان کی حکومت مضبوط ہوئی ہے۔پارٹی میں کئی لوگ ایسےہیں جو یہ جاننا چاہتے ہیں کہ اگر ہدف بنانے کی یہی سیاسی مہم شروع کرنا تھی تو نون لیگ نے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کی حمایت کیوں کی اور کیوں اسے قانون کا حصہ بنا کر مستقبل کے سروسز چیفس کی توسیع کا دروازہ کھولا۔میڈیا نے نواز اور مریم سےاس حوالے سے سوالات کیے ہیں کہ آخر انہوں نے اس مخصوص معاملے میں یہ کیا کر دیا ہے

تاہم انہوں نے جواب دینے سے گریز کیا۔مولانا فضل الرحمٰن بھی اتنے ہی پریشان ہیں جتنے نواز شریف اور کسی بھی قیمت پر عمران خان کی حکومت کو جاتا دیکھنا چاہتے ہیں لیکنمولانا اور ان کی جماعت کو صورتحال کی گرمی محسوس ہونا شروع ہو گئی ہے۔جو کچھ مولانا اور نواز شریف اسٹیبلشمنٹ کو ہدف بنا کر حاصل کرنا چاہتے ہیں؛ اس کی وجہ سے انہیں خود نقصان اور عمران خان کو فائدہ ہوا ہے۔ قابل بھروسہ ذرائع کا کہنا ہے کہ

اسٹیبلشمنٹعمران خان کی حکومت کی کارکردگی سے مایوس تھی اور اس نے اس بات کے اشارے دینا شروع کر دیے تھے کہ وہ خود کو سیاسی معاملات سے علیحدہ کر رہی ہے۔تاہم، نواز شریف کے اسٹیبلشمنٹ کے خلاف براہِ راست حملوں سے مقتدر حلقوں کے فیصلے کو نقصان ہو سکتا تھا۔ تاہم، جمعہ کو میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے مولانا نے اسٹیبلشمنٹ پر تنقید کرتے ہوئے واضح الفاظ کا استعمال کیا اور اسے موجودہ صورتحال کا ذمہ دار ٹھہرایا۔

تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں