گلگت(پی این آئی)وزیراعظم پاکستان عمران خان نے اپوزیشن پر تنقید کرتے ہوئے ایک بار پھر واضح کیا ہے کہ آنے والے دنوں میں دیکھیں گے کہ کس کی ٹانگیں کانپتیں ہیں اور کس کو پسینہ آتا ہے؟،میں بلیک میل نہیں ہوا تو چور ڈاکو آرمی اور آئی ایس آئی سربراہ کیخلاف بول رہے ہیں ۔ ہم پاکستان کے میر جعفر، میر صادق اور میر ایاز صادق کو دیکھ رہے ہیں، حق میں فیصلہ آئے
تو عدلیہ ٹھیک اور جب خلاف آئے تو یہ عدلیہ کے خلاف بیان بازی پر اتر آتے ہیں، عدلیہ میں کوشش کررہے ہیں ،ایک جج کو اوپر چڑھا دیں،پہلے تو ہمارا سارا زور ملکی معیشت کو ٹھیک کرنے پر تھا ،اب قانون کی بالادستی پر اتنا ہی زور لگاؤں گا اور ریاستی اداروں کو خود دیکھوں گا، پاکستان لوٹنے والوں کو کسی صورت نہیں چھوڑ ونگا ،نریندر مودی کی حکومت پاکستان میں انتشار پھیلانا چاہ رہی ہے،شیعہ، سنی فسادات کی منصوبے کو ہماری ایجنسیوں نے ناکام بنایا ،سیکیورٹی فورسز کی قربانیوں کی وجہ سے ہی آج پاکستان محفوظ ہے،عوام مشکل میں ہیں اور مشکلوں کا سامنا کررہے ہیں، غریب افراد کو اوپر لانا حکومت کی پالیسی ہے، گلگت بلتستان کو صوبائی درجہ دینے کا فیصلہ کیا ہے ۔ اتوار کو وزیراعظم عمران خان گلگت بلتستان کے 73 ویں یوم آزادی کی مرکزی تقریب میں شرکت کیلئے گلگت بلتستان پہنچے جہاں انہوں نے پریڈ کا معائنہ کیا۔اس موقع پر خطاب کرتے ہوء یانہوں نے کہا کہ میں ایک خوشی کے موقع پر گلگت بلتستان آیا ہوں، جہاں 73 سال قبل گلگت اسکاؤٹس نے اپنی جان کی قربانی دے کر گلگت بلتستان کو آزاد کروایا، مجھے خوشی ہے کہ میں دوسرے سال یہاں خوشی منانے آیا ہوں اور جب تک میں وزیراعظم رہوں گا میری کوشش رہے گی کہ میں یکم نومبر گلگت بلتستان کے عوام کے ساتھ گزاروں۔انہوںنے کہاکہ 15 سال کی عمر میں پہلی مرتبہ گلگت آیا، جب قراقرم ہائی وے بن رہی تھی، میں اسکول کی ٹریکنگ ٹیم کے ساتھ آیا، مجھے اس وقت جو ٹریکنگ کا شوق ہوا وہ آج تک ہے کیونکہ اس علاقے میں جو ٹریکنگ ہے وہ دنیا میں کہیں نہیں ہے، تاہم وزیراعظم بننے کا یہ نقصان ہوا ہے کہ میں ٹریکنگ نہیں کرسکتا۔عمران خان نے کہاکہ
گلگت اسکاؤٹس اور ان شہدا کو خراج تحسین پیش کرنا تھا جنہوں نے قربانیاں دے کر اس علاقے کو آزاد کروایا۔ دوسرا مجھے یہاں کے لوگوں کو مبارک باد دینی تھی کہ ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ گلگت بلتستان کو عبوری صوبائی حیثیت دینی ہے جو یہاں کے لوگوں کا مطالبہ تھا۔انہوں نے کہا کہ ہم نے یہ فیصلہ اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کی قراردادوں کو مدنظر رکھتے ہوئے
کیا ہے۔ انہوں نے گلگت بلتستان انتخابات قریب ہونے کی وجہ سے علاقے کے لیے ترقیاتی پیکج پر بات کرنے سے گریز کیا۔وزیراعظم نے کہاکہ ہماری حکومت کی پالیسی یہ ہے کہ اپنے کمزور طبقے کو اٹھایا جائے، جو لوگ پیچھے رہ گئے ہیں ان کو اوپر اٹھانا اولین ترجیح ہے، گلگت بلتستان، قبائلی علاقے اور بلوچستان، پنجاب کے مغربی حصے اور اندرون سندھ پیچھے
رہ گیا ہے اور ہماری کوشش ہے کہ ان سب علاقوں کو اوپر اٹھایا جائے، آنے والے دنوں میں آپ دیکھیں گے ہمارا سارا ترقیاتی پروگرام ان علاقوں کی طرف جائے گا۔ قوم کو پاکستان کیلئے مضبوط فوج کی اہمیت کے بارے میں بتاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پوری مسلم دنیا میں دیکھیں اور لیبیا سے شروع کریں پھر صومالیہ، شام، یمن، افغانستان اور عراق کو دیکھیں تو تباہی مچی ہوئی ہے
یا تو جنگیں ہوچکی ہیں یا ہورہی ہیں اور عوام مشکل کا سامنا کر رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ اس کے بعد یہ دیکھیں کہ ہمارے ملک کا جو ہمسایہ ہے بھارت وہاں وہ حکومت ہے جو 73 سال کی سب سے زیادہ انتہا پسند، مسلمانوں اور پاکستان سے نفرت کرنے والی ہے، جو وہ بھارت میں مسلمانوں کے ساتھ کر رہے ہیں اور 2 قانون بنائے ہیں وہ ان کے خلاف ہیں تاکہ انہیں برابر کا شہری نہ
سمجھا جائے جبکہ جو 5 اگست 2019 کو جو انہوں نے مقبوضہ کشمیر میں کیا وہ کسی بھارتی حکومت نے نہیں کیا جو اس انتہا پسند، نسل پرست حکومت جو ہندوتوا کا نعرہ لیکر أئی ہے اس نے کیا۔عمران خان نے کہاکہ ہمیں اس تناظر میں دیکھنا چاہیے کہ ہمیں کتنی مضبوط پاکستانی فوج اور سیکیورٹی فورسز کی ضرورت ہے، کوئی ہفتہ ایسا نہیں گزرتا جب پاکستان کی
سیکیورٹی فورسز کے جوان قربانی نہ دیں، سابقہ قبائلی علاقوں سے لیکر بلوچستان اور کبھی کبھی کراچی تک ایک پورے پلان کے ساتھ پاکستان کے خلاف دہشت گردی کی جارہی ہے ، ان کے سامنے ہمارے فوجی اور سیکیورٹی فورسز کھڑی ہیں۔انہوں نے کہا کہ جس طرح کی دہشت گردی گزشتہ 15 سال میں ہوئیں اور ملک کو غیرمستحکم کرنے کی کوشش کی
ہم اپنی سیکیورٹی فورسز کو داد دیتے ہیں کہ ان کی قربانیوں کی وجہ سے آج ہمارا وہ حال نہیں جو کئی دیگر مسلمان ممالک کا ہے۔انہوں نے کہا کہ ہمیں معلوم ہے کہ نریندر مودی کی حکومت یہ پاکستان میں انتشار پھیلانا چاہ رہی ہے، بھارت نے منصوبہ بندی کی ہوئی تھی کہ ملک میں شیعہ، سنی علما کو قتل کروایا جائے اور انتشار پھیلایا جائے لیکن میں اپنی انٹیلی جنسی ایجنسیوں کو
داد دیتا ہوں جنہوں نے ان کے منصوبوں کو ناکام بنایا۔عمران خان نے کہاکہ آج کل کے دنوں میں ایک منصوبہ بنا ہوا ہے اور وہ لوگ جو اپنے آپ کو جمہوریت پسند سیاست دان کہتے ہیں انہوں نے پاکستانی فوج اور عدلیہ کو بدنام کرنے کا منصوبہ بنایا ہوا ہے، جب میں وزیراعظم بنا تو میں نے کہا کہ جنہوں نے اس ملک کو 30 سال لوٹا اور پیسہ چوری کرکے باہر لیکر گئے وہ سب اکٹھے
ہوجائیں گے ، یہ میرے خلاف اس لیے اکٹھے ہوں گے کیونکہ میری مہم ہی کرپشن کے خلاف ہے۔وزیراعظم نے کہا میں نے کہا تھا کہ جس چیز میں پاکستان کا فائدہ ہے اس میں ان کا نقصان ہے اور جس میں ان کا فائدہ ہے اس میں پاکستان کا نقصان ہے، یہ لوگ چاہتے ہیں ان کی ساری کرپشن اور لوٹے ہوئے پیسے پر کہ کسی نہ کسی طرح مجھے بلیک میل کریں اور میں انہیں این آر او دے دوں
، یعنی انہیں معاف کردوں تاہم پاکستان کا فائدہ ایک چیز میں ہے کہ یہاں قانون کی بالادستی ہو، کمزور اور طاقتور کے لیے ایک قانون بنے۔اپوزیشن پر تنقید کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ انہوں نے پہلے مجھے بلیک میل کرنے کی کوشش کی، جب میں بلیک میل نہیں ہوا تو انہوں نے پاکستانی فوج اور آرمی چیف کے خلاف بندوقیں تانی ہوئی ہیں اور میں شکر ادا کرتا ہوں کہ میں نے
آرمی چیف کا انتخاب ٹھیک کیا کیونکہ اب جب ڈاکو ان کے خلاف بول رہے ہیں تو مطلب میری سلیکشن ٹھیک تھی۔ عمران خان نے کہا میں نے کہا دھاندلی ہوئی ہے تو حلقے کھول دو لیکن یہ بھاگ گئے، ان لوگوں نے مجھے معیشت اور الیکشن پر بلیک میل کرنے کی کوشش کی، ایف اے ٹی ایف اور کورونا کے معاملے پر بھی بلیک میل کرنے کی کوشش کی۔ وزیر اعظم نے کہاکہ مسلمانوں کو
سب سے زیادہ نقصان میر جعفر اور میر صادق نے پہنچایا، یہ وہ غدار تھے جنہوں نے مسلمانوں کو اندر سے نقصان پہنچایا، آج ہم پاکستان کے میر جعفر، میر صادق اور میر ایاز صادق کو دیکھ رہے ہیں، بھارتی پائلٹ ابھی نندن کے معاملے پر مجھے دنیا بھر سے مبارکباد کے پیغامات آئے اور یہ (ایاز صادق) آج کہہ رہے ہیں کہ پاکستان نے ڈر کر بھارتی پائلٹ کو حوالے کیا۔وزیراعظم نے
کہا کہ یہ سب اس لیے ہو رہا ہے کہ عمران خان دبائو میں آکر انہیں این آر او دے دے لیکن پوری قوم کو بتا دینا چاہتا ہوں کہ عمران خان انہیں کبھی معاف نہیں کرے گا۔انہوں نے کہا کہ جب عدلیہ نے حدیبیہ ملز کیس میں ان کے حق میں فیصلہ دیا تو ٹھیک اور جب عدلیہ ان کے خلاف فیصلہ دے تو یہ عدلیہ کے خلاف بیان بازی پر اتر آتے ہیں، یہ عدلیہ میں کوشش کررہے ہیں ایک جج کو
اوپر چڑھا دیں۔انہوں نے کہاکہ ان کی کوشش ہے کہ کسی طرح عدلیہ اور فوج پر دباؤ ڈال کر این آر او لیا جائے۔ انہوں نے کہاکہ پہلے تو ہمارا سارا زور ملکی معیشت کو ٹھیک کرنے پر تھا لیکن اب قانون کی بالادستی پر اتنا ہی زور لگاؤں گا اور ریاستی اداروں کو خود دیکھوں گا، قانون کی بالادستی کا مطلب ہے کہ اگر ایک طاقتور چوری کرتا ہے تو اس کو بھی اسی طرح سزا ملے جس طرح کمزور کو ملتی ہے۔وزیراعظم نے کہا کہ آنے والے دنوں میں قوم دیکھے گی کہ کس کی ٹانگیں کانپتی ہیں اور کس کے ماتھے پر پسینہ آتا ہے۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں