اسلام آباد (پی این آئی) جسٹس قاضی فائز عیسی کے خلاف صدارتی ریفرنس غیر آئینی قرار دیتے ہوئے سپریم کورٹ نے قرار دیا ہے کہ شہزاد اکبر کے ایسٹ ریکوری یونٹ کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے، صدر آئین کے مطابق اختیارات کے استعمال میں ناکام رہے، شہزاد اکبر اور فروغ نسیم جرم کے مرتکب ہوئے، صدارتی
ریفرنس بدنیتی پر مبنی تھا، ریفرنس دائر کرنے کا سارا عمل آئین اور قانون کے خلاف تھا، جسٹس فائز عیسیٰ کو لندن کی جائیدادیں بتانے کی کوئی ضرورت نہیں، فائز عیسیٰ کو ریاستی جاسوسی کا نشانہ بنایا گیا۔جسٹس عمر عطا بندیال نے 224 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ جاری کیا۔ فیصلے میں جسٹس یحییٰ آفریدی اور جسٹس فیصل عرب نے علیحدہ نوٹ بھی لکھے ہیں۔فیصلے میں قراردیا گیا ہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس آئین کی خلاف ورزی تھی، صدرمملکت نے آئین و قانون سے تجاوز کیا، صدر آئین کے مطابق صوابدیدی اختیارات کے استعمال میں ناکام رہے۔ فیصلوں کے خلاف نظر ثانی درخواستیں دائر کرنا آئینی و قانونی حق ہے۔فیصلے میں کہا گیا ہے کہ کوئی شق نہیں کہ ججز کے خلاف ریفرنس کو خفیہ رکھنا چاہیے۔ عدالت کا کہنا تھا کہ تحقیق کرنے والے صدر مملکت کو بریفنگ دے سکتے ہیں، مشورہ نہیں۔عدالت نے فیصلے میں لکھا کہ ایف بی آر کے نوٹسز پر جسٹس قاضی فائز کی اہلیہ اور بچے جواب دیں گے، 7 روز میں نوٹس جسٹس قاضی فائز کی اہلیہ اور بچوں کو جاری کیا جائے۔ نوٹسز جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کی سرکاری رہائشگاہ پر بھیجے جائیں۔ دستاویزی ریکارڈ کے ساتھ ایف بی آر کو جواب دیا جائے، کمشنر انکم ٹیکس اپنی کارروائی میں کسی قسم کا التوا نہ دیں۔۔۔۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں