اسلام آباد(آئی این پی) سپریم کورٹ نے جسٹس فائز عیسی ریفرنس پر تفصیلی فیصلہ جاری کر دیا سپریم کورٹ نے اپنے تفصیلی فیصلے میں کہا ہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسی کے خلاف صدارتی ریفرنس آئیں اور قانون کے خلاف ہے۔ سپریم کورٹ کے جج جسٹس عمر عطا بندیال کی جانب سے تحریر کیا گیا فیصلہ 224صفحات
پر مشتمل ہے تفصیلی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ صدر آئین کے مطابق صوابدیدی اختیارات کے استعمال میں ناکام رہے، ریفرنس نمبر ایک 2019کو غیر قانونی قرار دے کر کالعدم قرار دیا جاتا ہے، درخواست گزار کو 17 اگست 2019 کو جاری نوٹس واپس لیا جاتا ہے۔تحریری فیصلے میں کہا گیا ہے کہ فیصلے کے 7روز کے اندر ان لینڈ ریونیو کمشنر خود متعلقہ نوٹسز قاضی فائز عیسی کی اہلیہ اور بچوں کو جاری کریں۔ ایف بی آر نوٹسز میں جسٹس قاضی فائز عیسی کی اہلیہ اور بچوں سے برطانیہ میں خریدی جائیدادوں کے ذرائع آمدن پوچھے۔فیصلے میں کہا گیا ہے کہ یہ نوٹسز جسٹس قاضی فائز عیسی کی سرکاری رہائش گاہ پر بھیجے جائیں۔ ایف بی آر کے نوٹسز پر جسٹس قاضی فائز عیسی کی اہلیہ اور بچے متعلقہ تفصیلات پر جواب دیں۔ دستاویزی ریکارڈ کے ساتھ ایف بی آر کو جواب دیے جائیں۔فیصلے میں کہا گیا ہے کہ اگر کوئی ریکارڈ پاکستان سے باہر کا کہا ہے تو متعلقہ لوگوں کی ذمہ داری ہے کہ بروقت فراہم کریں۔ انکم ٹیکس کمشنر اپنی کارروائی میں کسی موڑ پر التوا نہ دے۔تفصیلی فیصلہ سور النسا کی آیات سے شروع کیا گیا ہے جس کے مطابق آزاد، غیر جانبدار عدلیہ کسی بھی مہذب جمہوری معاشرے کی اقدار میں شامل ہے۔اس کے علاوہ جسٹس فیصل عرب اور جسٹس یحی آفریدی نے فیصلے میں الگ نوٹ تحریر کیا ہے، تفصیلی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ریفرنس میںدھرنا کیس نہیں لندن جائیدادوں کی بنیاد پر بنا، آئین میں کوئی شق نہیں جس کے تحت جج کے خلاف ریفرنس خفیہ رکھنا چاہیے، ریفرنس نمبر ایک 2019کو کالعدم قرار دیا جاتا ہے، درخواست گزار کو 17 اگست 2014کاجاری نوٹس واپس لیا جاتا ہے۔۔۔۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں