اسلام آباد (پی این آئی )12 اگست 1983 کو جنرل ضیا الحق نے مجلس شوریٰ سے خطاب کرتے ہوئے اعلان کیا کہ 31 مارچ 1985 تک عام انتخابات منعقد کروا دیے جائیں گے، یہ انتخابات حسب پروگرام قومی اسمبلی کے لیے 25 فروری اور صوبائی اسمبلیوں کے لیے 28 فروری کو منعقد ہوئے۔بی بی سی اردو میں شائع سینئر صحافی ظفر ملک اپنی تحریر
’’آٹھویں آئینی ترمیم: رات کی تاریکی میں منظور کی جانے والی ترمیم، جس کے شکار کئی منتخب وزرائے اعظم بنےمیں لکھتے ہیں کہ ۔۔عام انتخابات کا عمل مکمل ہونے کے بعد جنرل ضیا الحق نے دو مارچ 1985 کو آئین کی بحالی کا حکم یعنی ریوائیول آف کانسٹیٹیوشن آرڈر جاری کیا، جسے آر سی او یا ’صدارتی حکم نمبر 14‘ کہتے ہیں۔قومی اسمبلی میں حزب اختلاف کے اس وقت کے قائد حاجی محمد سیف اللہ خان کے ساتھ آٹھویں آئینی ترمیم پر اس تحریر کے مصنف (ظفر ملک) کا طویل انٹرویو ہے جو ان کی زندگی میں لیا گیا۔اُس انٹرویو میں حاجی سیف اللہ نے بتایا تھا کہ ’آر سی او کے ذریعے جنرل ضیا الحق نے 1973 کے آئین کا پورا ڈھانچہ تبدیل کر دیا۔ ان کے اس ایک حکم سے پاکستان کے آئین کی روح پارلیمانی کے بجائے صدارتی شکل اختیار کر گئی۔‘حاجی سیف اللہ نے بتایا تھا کہ ’حقیقت یہ ہے کہ آر سی او کا نفاذ اس قوم کے لیے ایک سانحے سے کم نہ تھا کیونکہ اگر جنرل صاحب کا ارادہ اسی طریقے سے آئین کی ترمیم کرنے کا تھا تو ان کے لیے لازم تھا کہ وہ انتخابات سے قبل اس کا اظہار کرتے تاکہ عوام اور ان کے نمائندے سوچ سکتے کہ اس صورتحال میں وہ انتخابات میں حصہ لے سکتے ہیں کہ نہیں، مگر عام انتخابات کے فوری بعد انھوں نے آر سی او کے ذریعے آئین کو پارلیمانی سے تبدیل کر کے صدارتی شکل دے دی۔‘قائد حزب اختلاف حاجی سیف اللہ کی رائے تھی ’آئین میں وزیر اعظم کی حیثیت صدر مملکت کے ایک مشیر کی سی تھی اور ان کا نامزد کردہ قرار دے دیا گیا اور یہ صدر کی صوابدید پر چھوڑ دیا گیا کہ وہ وزیر اعظم کا مشورہ تسلیم کرے یا نہ کرے، اسی طرح صوبوں میں وزیر اعلیٰ کی حیثیت گورنر کے
مشیر کی سی رکھی گئی تھی۔‘آر سی او کے تحت آئین میں ترمیم کے لیے جنرل ضیا الحق نے جو طریقہ تجویز کیا تھا اس کے لیے ضروری تھا کہ قومی اسمبلی اور سینیٹ کی دو تہائی اکثریت اور چاروں صوبائی اسمبلیاں ترمیم پر اتفاق کریں اور اگر کوئی ایک صوبائی اسمبلی بھی اس ترمیم کو مسترد کر دے تو وہ کالعدم تصور ہو گی یعنی کسی بھی ایک صوبائی اسمبلی کو آئین میں
ترمیم کے خلاف ویٹو کا اختیار حاصل تھا۔آئینی ترمیم کے اس طریق کار کے بارے میں حاجی سیف اللہ کی رائے تھی کہ ’اس طرح آئین توڑنے کی ہی گنجائش رہ جاتی ہے اس میں ترمیم تو نہیں کی جا سکتی۔‘قومی اسمبلی کے پہلے اجلاس سے قبل جبکہ نو منتخب ارکان نے حلف بھی نہیں اٹھایا تھا، ارکان قومی اسمبلی کو وزارت خزانہ کی طرف سے ایک خط موصول ہوا جس میں ان کو
اطلاع دی گئی تھی کہ اُن کے ذاتی اکاؤنٹ میں ایک لاکھ دس ہزار روپے بھجوا دیے گئے ہیں جسے وہ اپنی صوابدید پر پانچ ہزار روپے فی کس کے حساب سے کسی کو بھی قرض حسنہ کے طور پر دے سکتے ہیں۔ساتھ ہی یہ وضاحت بھی کر دی گئی تھی کہ یہ ایک ایسا قرضہ نہیں ہے جو قابل وصول ہو بلکہ ناقابل واپسی قرضہ ہے اور واپس نہ کرنے پر کوئی باز پرس نہیں ہو گی۔ حاجی سیف اللہ کہتے ہیں کہ اس کا مقصد ارکان اسمبلی کی زبان بند کرنا تھا کیونکہ آر سی او اسمبلی میں زیر بحث آنے سے قبل ہی یہ انتظام کیا گیا تھا۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں