برلن (این این آئی)بینکنگ صنعت سے متعلق ایک خفیہ دستاویزات کی کھیپ پکڑی گئی ہے جس میں انکشاف ہوا ہے کہ کس طرح سے صف اول کے مغربی بینکوں کے ذریعہ بلا روک ٹوک غیر قانونی رقوم کی ترسیلات ہو تی ہیں۔ اس کام میں منی لانڈرنگ کے خلاف کریک ڈائو ن سے صرف نظر کیا جا تا ہے۔ انفرادی اور
تنظیمی سطح پر متنازع فنڈز کی منتقلیاں ہو تی ہیں۔ ان میں سے کچھ کا تعلق پاکستان سے ہے۔بز فیڈ نے مذکورہ تمام ریکارڈ ایک وہسل بلوور سے حاصل کیا ہے جس نے اسے انٹرنیشنل کنسورشیم آف انوسٹی گیٹو جرنلسٹس (آئی سی آئی جے)سے شئیر کیا ہے۔88 ممالک کے 108 میڈیا اداروں کے ساتھ پاکستان سے دی نیوز بھی شراکت دار ہے۔میڈیارپورٹس کے مطابق جو فائلز پکڑی گئی ہیں انہیں مشکوک سرگرمیوں کی رپورٹس ( ایس اے آرس)قرار دیا گیا ہے اور اس بات کا شک ہے کہ بینکوں کے ذریعہ20 کھرب ڈالرز کی ترسیلات ہوتی ہیں۔ایس اے آرس میں رقم کے آجانے کا مطلب یہ نہیں کہ جرم ثابت ہو گیا بلکہ رقوم کے ذرائع کے حوالے سے پوچھ گچھ کی ضرورت رہتی ہے۔امریکی وزارت خزانہ کو اس کی رپورٹ کیے جانے کے بعد اسے ریکارڈ میں دبا دیا جاتا ہے۔بز فیڈ نیوز کے مطابق کچھ افشا ہونے والا ریکارڈ 2016 کے امریکی صدارتی انتخاب میں روسی مداخلت کی تحقیقات کرنے والی امریکی کانگریشنل کمیٹی کی تحقیقات کے حصے کے طور پر جمع کیا گیا ہے۔جب کہ دیگر مواد جو جمع کیا گیا ہے وہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی طرف سے فن سین سے اس درخواست کے بعد کہ ذرائع کی شناخت ظاہر نہیں کی جائے گی، بز فیڈ نیوز نے ذرائع کی شناخت پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔آئی سی آئی جے نے 2013 میں بھی آف شور لیکس پیپرز ، 2015 میں سوئس لیکس، 2016 میں پاناما پیپرز اور 2017 میں پیراڈائز پیپرز کی تحقیقات کی تھیں لیکن یہ فن سین پیپرز ان سے مختلف ہیں۔یہ لیکس ایک یا دو کمپنیوں کی دستاویزات نہیں ہیں بلکہ یہ متعدد بینکوں کی جانب سے آئی ہیں، ہر دس میں سے ایس اے آرس کی اکثریت اسٹینڈرڈ چارٹرڈ بینک، جے پی مورگن، بینک آف نیویارک میلون اور ڈوئچے بینک سے متعلق ہے۔افشا دستاویزات 2100 ایس اے آرس پر مشتمل ہیں جس میں انفرادی اور مختلف ممالک سے اداروں کے نام درج ہیں، کچھ کا تعلق پاکستان سے بھی ہے۔ پاکستان سے الطاف خانانی کی کمپنی کا نام بھی شامل ہے۔منی لانڈرنگ نیٹ ورک کے تحت کئی کمپنیاں جن کی مصنوعات میں طالبان کے لیے دھماکہ خیز آلات بنانا شامل ہے۔ ایس اے آرس میں کچھ انفرادی نام بھی شامل ہیں جن پر غیر قانونی رقوم کی ترسیلات کا شبہ ہے۔ایس اے آرس میں چھ پاکستانی بینکوں کے نام بھی درج ہیں جن کے ذریعہ 20کھرب ڈالرز کی ترسیلات ہوئی ہیں۔خانانی نے عالمی پیمانے پر منی لانڈرنگ کی، اس کے کلائنٹس میں منشیات سے لے کر دہشت گرد تنظیموں تک سب ہی شامل ہیں۔خانانی کے عالمی نیٹ ورک کے ذریعے سالانہ دنیا بھر میں 14 سے 16 ارب ڈالرز تک کی منی لانڈرنگ کی گئی۔ اس مقصد کے لیے دبئی کی مزاکا جنرل ٹریڈنگ کمپنی کو استعمال کیا گیا۔دسمبر 2013 سے فروری 2014 تک دو کمپنیوں سیبورن اور درائیڈن کی جانب سے پانچ منتقلیوں کے ذریعے چار کروڑ 20 لاکھ ڈالرز ملے، یہ کمپنیاں منی لانڈرنگ کے حوالے سے بدنام ہیں۔اسے مزید سات لاکھ 20 ہزار ڈالرز ہائی لکس سروسز سے ملے جو آذر بائیجان میں منی لانڈرنگ اسکینڈل میں ملوث تھی۔ مزاکا کو ڈوئچے بینک میں مزید پانچ کروڑ ڈالرز پانچ کمپنیوں سے ملے۔ سنگا پور میں ایک کمپنی آسک ریڈنگ کی جانب سے کی جانب سے بھی تین منتقلیاں ہوئیں۔خانانی نیٹ ورک کی دو کمپنیوں الضروری ایکسچینج اور وادی الفراح اسٹینڈرڈ چارٹرڈ بینک کے ذریعے منتقلیوں کے لیے استعمال کیا گیا۔ اسی طرح ڈوئچے بینک کو ایک لاکھ 84 ہزار ڈالرز کی منتقلی کے لیے استعمال کیاگیا۔ خانانی کو گھیرنے کے لیے مزاکا کو اس وقت استعمال کیا گیا جب 11 لاکھ 25 ہزار ڈالرز کی ڈرگ منی اکائونٹ میں منتقل کی گئی۔ ملزم پاناما ائیر پورٹ پر پکڑا گیا۔ خانانی کو ساڑھے پانچ سال قید کی سزا ہوئی جو رواں سال جولائی میں مکمل ہو گئی۔ اس کا موجودہ محل وقوع کسی کے علم میں نہیں اور اس کا وکیل بھی آئی سی آئی جے کے رابطے میں نہیں آ رہا۔ ایس اے آرس سے معلوم ہوتا ہے کہ منتقلیوں سے متعلق کئی پاکستانی کمپنیوں نے بھی خطرے کو بھانپ لیا کیونکہ ان پر طالبان کی تخریبی سرگرمیوں کے لیے مبینہ طور پر خام مال فراہم کر نے کا الزام ہے۔مثال کے طور پر ایک فرٹیلائزر کمپنی نے اپنے اکانٹ سے تین ارب 80 کروڑ ڈالرز چین، دبئی اور پاکستان میں نامعلوم کاروباری ادروں کو بھیجے یا وصول کئے۔ 2012 میں امریکی اخبار کی ایک رپورٹ کے مطابق طالبان کے لیے بم سازی میں تقریبا تمام امونیم نائٹریٹ ایک کمپنی نے بنایا۔ ایس اے آرس کے مطابق تین پاکستانی کمپنیاں دھماکا خیز مواد کے لیے طالبان کی جانب سے استعمال کیمیائی مواد بناتی ہیں۔ایک کمپنی نے اسٹینڈرڈ چارٹرڈ بینک کے ذریعے 12 لاکھ ڈالرز کی متحدہ عرب امارات میں نامعلوم اکائونٹ میں منتقلی کی جس میں ارضی ارتعاش کے لیے دھماکوں کا حوالہ دیا گیا۔ 2009 میں ایک کمپنی کو اس وقت اپنے لائسنس سے محروم ہونا پڑا جب وہ 58 ٹن دھماکا خیز مواد افغان سرحد پر منتقل کرتے پکڑی گئی۔اداروں کے علاوہ کچھ پاکستانی شخصیات کو بھی ایس اے آرس میں نامزد کیا گیا ہے۔ ایک بیکری کے مالک کو اور اس کے دو بیٹوں کو 2012 میں دبئی سے پاکستان ساڑھے آٹھ لاکھ ڈالرز منتقل ہوئے۔اس وقت ایف بی آر اور انٹیلی جنس اداروں کو چوکنا کر دیا گیا تھا لیکن اس وقت تحقیقات کا کیا نتیجہ برآمد ہوا کسی کو معلوم نہیں ہے۔۔۔۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں