اسلام آباد (پی این آئی) حکومت نے چینی اسکینڈل سے متعلق فارنزک رپورٹ پبلک کردی ‘وزیراعظم عمران خان نے وعدہ پورا کردیا ‘ پہلی بار ساتھیوں کے خلاف کارروائی۔تفصیلات کے مطابق چینی انکوائری کمیشن نے تحقیقاتی اور فرانزک آڈٹ رپورٹ وفاقی کابینہ میں پیش کر دی جس میں چھ بڑے گروپوں کو ذمہ دار قرار
دیا گیا۔رپورٹ میں پی ٹی آئی اور اس کی اتحادی مسلم لیگ ق سے وابستہ بعض رہنمائوں کے نام بھی سامنے آئے ہیں ، کمیشن نے اس ضمن میں جہانگیر ترین ، شریف فیملی ، خسرو بختیار کے بھائی عمر شہریار، مونس الٰہی اور سندھ کے اومنی گروپ کو ذمہ دار قرار دیا۔رپورٹ میں قراردیاگیاہے کہ پیداواری لاگت میں گھپلے ‘کارٹل‘سیٹھ اور حکومتی اداروں کیلئے الگ الگ کھاتوں ‘پرچی سے کم قیمت پر گنے کی خرید‘ بغیراجازت پیداواری صلاحیت میں اضافے ‘افغانستان کو چینی برآمد‘بے نامی خریداری ‘ ٹی ٹی سےوصولی اورسٹے کے ذریعے ہیراپھیری اور فراڈ کیاگیا۔رپورٹ میں سفارش کی گئی کہ چینی بحران کے ذمہ داروں کے مقدمات درج کرکے وصولیاں کی جائیں ‘ریکور کی گئی رقم متاثر ہ کسانوں اورعوام میں تقسیم کی جائے۔معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر نے کہا کہ شوگر ملز نے 22 ارب روپے کا انکم ٹیکس دیا اور 12 ارب کے انکم ٹیکس ریفنڈز واپس لئے یوں صرف 10 ارب روپے انکم ٹیکس دیا گیا‘کمیشن نے چینی بحران کا ذمہ دار ریگولیٹرز کو قرار دیا ہے جن کی غفلت کے باعث بحران پیدا ہوا اور قیمت بڑھی‘شوگرایڈوائزری بورڈ ‘ ایس ای سی پی، مسابقتی کمیشن،ایف بی آر، اسٹیٹ بنک سمیت وفاقی اورصوبائی اداروں نے غیر ذمہ داری دکھائی۔کمیشن نے کیسز نیب، ایف آئی اے اور اینٹی کرپشن کو بھجوانے کی سفارش کی ہے، کمیشن کی سفارشات کی روشنی میں آنے والے دنوں میں ایکشن ہوگا۔عید کے بعد وزیراعظم کی ہدایت پر سفارشات تیار ہوں گی جبکہ وفاقی وزیراطلاعات سینیٹر شبلی فرازکا کہناہے کہ یہ رپورٹ شروعات ہے ‘ دیگر معاملات کی بھی تحقیقات ہوگی ‘ماضی کے حکمرانوں نے اپنے مفادات کی وجہ سے ادارے تباہ کیے۔جمعرات کو وفاقی کابینہ کے اجلاس کے بعد شبلی فراز اور معاون خصوصی شہبازگل کے ساتھ میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے شہزاد اکبر نے کہاکہ واجد ضیا نے کابینہ کے سامنے چینی کمیشن کی رپورٹ پیش کی۔شوگر انکوائری کمیشن نے دسمبر 2018 سے اگست 2019 تک چینی کے مصنوعی بحران کی تحقیقات کی اور اس بات کا پتہ چلایا کہ اس عرصے میں چینی کی قیمتوں میں 33 فیصد کیونکر اضافہ ہوایہ اضافہ 17 روپے فی کلوگرام بنتا ہے۔شوگر ملز نے کسانوں کے ساتھ زیادتی کی اور تسلسل کے ساتھ نقصان پہنچایا، کسان سے کٹوتی کے نام پر زیادتی کی گئی، شوگر ملیں 15 سے 30 فیصد تک گنے مقدار میں کم کرکے کسانوں کو نقصان پہنچاتی رہیں۔شوگر ملز نے کسانوں سے سپورٹ پرائس سے کم دام پر اور کچی پرچیوں پر گنا خریدا، کسانوں کے ساتھ مل مالکان نان آفیشل بینکنگ بھی کرتے رہے، 2019 میں گنا 140 روپے سے بھی کم میں خریدا گیا، شوگر ملز نے2017-18 میں چینی کی 13 روپے زیادہ قیمت مقرر کی۔2017-18 میں مل مالکان نے 51 روپے چینی کی لاگت بتائی، حالانکہ کمیشن نے تعین کیا یہ لاگت 38 روپے ہے۔شہزاد اکبر نے بتایا کہ اسی طرح 2018-19 میں ساڑھے بارہ روپے کا فرق پایا گیا۔2019-20 میں 16 روپے کا فرق پایا گیا، شوگر ملز نے2018-19 میں 12 اور 2019-20 میں 14 روپے زیادہ قیمت مقرر کی، ساری شوگر ملز نے دو کھاتے بنائے ہوئے ہیں، ایک کھاتا حکومت کو دوسرا سیٹھ کو دکھایا جاتا ہے، چینی کی بے نامی فروخت بھی دکھا کر ٹیکس چوری کی گئی۔معاون خصوصی نے کہا کہ چینی کی قیمت میں صرف ایک روپیہ اضافے سے 5 ارب 20 کروڑ روپے منافع کمایا جاتا ہے‘ریگولیٹری اور ٹیکس فراڈ سے کرشنگ کی استعداد کو بڑھایا جاتا ہے۔قانون کے مطابق اس استعداد کو بغیر منظوری کے نہیں بڑھایا جاسکتا کیونکہ 8000 میٹرک ٹن سے 65000 میٹرک ٹن روزانہ کی استعداد بڑھائی گئی اتنی استعداد بڑھنے کا مطلب 8 اضافی شوگر ملز لگانا ہے۔پاکستان میں تقریباً 25 فیصد گنا ان رپورٹڈ (غیر دستاویزی شکل میں) ہے جس سے اس پر ٹیکس بھی نہیں دیا جاتا، پانچ برسوں میں 88 شوگر ملز کو 29 ارب کی سبسڈی دی گئی۔2015میں ساڑے چھ ارب روپے کی سبسڈی دی گئی ، 2016 میں بھی ساڑھے چھ ارب روپے کی سبسڈی دی گئی ، 2017 میں کوئی سبسڈی نہیں دی گئی ، 2018 میں وفاق نے ساڑھے پندرہ ارب روپے کی سبسڈی دی اور سندھ حکومت نے 4 ارب 10کروڑ روپے کی سبسڈی دی۔2019-20میں وفاقی حکومت نے کوئی سبسڈی نہیں دی لیکن پنجاب حکومت نے 3 ارب روپے کی سبسڈی دی ، 88 شوگر ملز نے 22 ارب روپے کا انکم ٹیکس دیا اور 12 ارب کے انکم ٹیکس ریفنڈز واپس لئے یوں صرف 10 ارب روپے انکم ٹیکس دیا گیا۔شہزاد اکبر کا کہنا تھا کہ سندھ حکومت نے اومنی گروپ کو سبسڈی دے کر بے تحاشا فائدہ پہنچایا، المعیز گروپ میں کچی پرچی کارواج بہت ملا ہے اور اس نے کسانوں کو40کروڑ روپے کم دیےگئے،جے ڈی ڈبلیو گروپ کی شوگر ملز کارپوریٹ فراڈ میں ملوث نکلی ہیں، جہانگیرترین گروپ کی شوگر ملز اوورانوائسنگ اور ڈبل بلنگ میں ملوث ہیں۔معاون خصوصی نے کہا کہ پاکستان سے افغانستان کو برآمد کی گئی چینی مشکوک ہے، پاکستان کی برآمد اور افغانستان کے درآمد ڈیٹا میں فرق آیا، ایک ٹرک 15 سے 20 ٹن لے کر جاسکتے ہیں، لیکن ظاہر یہ کیا گیا کہ ایک ایک ٹرک پر 70 سے 80 ٹن چینی افغانستان لے کر گئے ہیں۔یہ ایسا مذاق ہے جو آج تک کسی نے نوٹ نہیں کیا۔وفاقی کابینہ نے دیگر ملوں کا بھی فرانزک آرڈر کرنے کی ہدایت دی اور ریکوری کرکے پیسے عوام کو دینے کی سفارش کی ۔ اس موقع پر شبلی فراز نے کہا کہ اس رپورٹ سے بہت سے ادارے بے نقاب ہوئے ہیں‘یہ تمام ادارے 20ماہ میں خراب نہیں ہوئے بلکہ یہ ایک منظم نظام کےتحت تباہ کیے گئے۔شہزاداکبر نے کہا کہ چینی ملز کارٹل کے طور پر کام کررہے ہیں ، مسابقتی کمیشن ان کو روکنے میں ناکا م رہا‘ملک کے 6 بڑے شوگر گروپ کا فرانز ک آڈٹ کیا گیا جو ملک کی مجموعی چینی کا 51 فیصد پیدا کرتے ہیں۔ان میں ملک کی 88 شوگر ملز میں سے 38 بڑے کارخانے ان چھ بڑے گروپوں کی ملکیت ہیں ، ان گروپوں میں جمال دین والی( جے ڈی ڈبلیو) گروپ ، رحیم یار خان( آر وائی کے) گروپ ، المعیز گروپ ، تاندلیاں والا گروپ ،شریف گروپ اور اومنی گروپ شامل ہیں۔ان میں جمال دین والی گروپ ( جے ڈی ڈبلیو) گروپکا 20 فیصد شیئر ، رحیم یار خان( آر وائی کے) گروپ کے 12 فیصد شیئر ، المعیز گروپ کے 6.8فیصد اور تاندلیاں والا گروپ کے 4.9فیصد شیئر ، شریف گروپ کے 4.5فیصد شیئر اور اومنی گروپ کے 1.65فیصد شیئر ہیں۔رحیم یار خان گروپ میں مونس الہی ، عمر شہریار اور دیگر کے شیئرز ہیں ، جے ڈی ڈبلیو میں جہانگیر خان ترین ، علی ترین اور احمد محمود کے شیئرزہیں ، شریف برادران میں سلمان شہباز ، حمزہ شہباز ، شہباز شریف کے شیئرز ہیں۔حمزہ ملز میاں محمد طیب فیملی کی ہے، ان تمام گروپوں میں انتہائی اہم اورطاقتور سیاسی شخصیات ان کے قریبی عزیز اور قابل اعتماد دوست شامل ہیں ، گزشتہ کئی برسوں سے ان بڑے گروپوں نے یوٹیلٹی اسٹورز کو چینی فراہم نہیں کی ، اور ادارے چینی بحران میں خاموش تماشائی بنے رہے۔رپورٹ کے مطابق آر وائی کے گروپ نے کسانوںسے کٹوتی کر کے 970 ار ب روپے کا منافع کمایا ، ایک بروکر اسد بھایا کو 6ارب روپے دے دیئے گئے ‘بے نامی کے شوائد ملے ہیں۔جے ڈی ڈبلیو گروپ پبلک لمٹیڈ کمپنی ہے انہوں نے بھی ڈبل بکنگ کی ، کرشنگ کی صلاحیت کو 64500 ٹن تک بڑھایا گیا ، 25 فیصد کیانڈرانوائسنگ کی گئی ،اور پبلک لمٹیڈ کمپنی کا پیسہ پرائیویٹ لمٹیڈ کمپنی کو دیا گیا۔شریف گروپ نے ڈبل اکائونٹنگ اور ڈبل بکنگ کی ، شریف گروپ نے 2017-18 میں 47 فیصدگنے کی خریداری کی اور کاغذات میں کم دکھائی تاندیوالہ گروپ کا بے نامی کیسز بھی ہیں۔رپورٹ میں سفارش کی گئی کہ کمیشن کے تحقیقات اور فرانزک آڈٹ کا دائرہ کار وسیع کرتے ہوئے ایف آئی اے ، ایس ای سی پی ، انٹی کرپشن ، ایف بی آر اور سٹیٹ بنک پر مشتمل تحقیقاتی ٹیمیں تشکیل دی جائیں جو ملک میں چینی کے تمام کارخانوں کا آڈٹ کریں اور نتایج کی روشنی میں قانونی کارروائی عمل میں لائی جائے۔نیب سے درخواست ہےکہ وہ پبلک آفس ہولڈرز یا ان کے قریبی عزیزوںا ور دوستوں کے چینی کارخانوں کے ان عوام کی تفتیش کریں جو کہنیب اور آرڈیننس کے تحت قابل جرم سزا ہیں اور قومی خزانے سے سبسڈی کے حصول کے نام پر لوٹ کھسوٹ کی بھی تحقیقات کریں۔شہزاد اکبر نے کہا کہ اداروں کو تحقیقات کےلیے وقت مقرر کیاجائےگا‘ کمیشن ای سی ایل میں کسی کا نام نہیں ڈال سکتا ، متعلقہ ایجنسی تحقیقات کرے گی اور وفاقی حکومت سے درخواست کی جائے گی کہ ای سی ایل میں نام ڈالا جائے، فی الحال ای سی ایل میں نام ڈالنے کی کوئی تجویز زیر غور نہیں۔انہوں نے کہا کہ شوگر ایڈوائزی بورڈ اور ای سی سی کے لیے بھی رپورٹ میں سفارشات ہیں کہ کیا اتنی مقدار میں چینی ملک میں موجود تھی کی شوگر ایڈوائزری بورڈ نے برآمد کی اجازت دی اور مقامی مارکیٹ میں چینی کی قیمت کو مدنظر کیوں نہیں رکھا گیا ، اس کا ذمہ دار شوگر ایڈوائزری بورڈ کو ٹھہرایا گیا۔انہوں نے کہا اس رپورٹ پر حکم امتناعی کی کوئی صورت نہیں بنتی اگر حکم امتناعی لیا گیا تو حکومت لائحہ عمل مرتب کرے گی۔خسروبختیار سے متعلق سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ مل خسروبختیار کے بھائی کی ہے اس میں خسروبختیار کو کوئی تعلق نہیں بنتا ، شہزاد اکبر نے کہا کہ آنیوالے دنوں میں ذمہ داران کے خلاف کارروائی ہوگی۔انہوںنے مشیر تجارت عبدالرزاق دائودسے متعلق سوال کے جواب میں کہا کہ رپورٹ میں نام آنا کافی نہیں ان کے کردار کو بھی دیکھنا ہوتا ہے ۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں