اسلام آباد (پی این آئی) چینی کی قیمت بڑھا کر عوام کی جبیوں پر 120 ارب روپے کا ڈاکہ کس نے ڈالا؟شوگر انکوائری کمیشن نے 50؍ ہزار ایسے غیر رجسٹرڈ خریداروں کا پتہ لگایا ہے جو اربوں روپے مالیت کے لین دین میں ملوث ہیں۔پاکستان کے سب سے بڑے میڈیا جنگ گروپ سے وابستہ سینئر صحافی زاہد گشکوری نے
اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ اس نئی صورتحال سے تحقیقات کاروں کو اصل مجرموں کا پتہ لگانے میں مدد مل سکتی ہے جنہوں نے چینی کی قیمتیں 23؍ سے 27؍ روپے فی کلوگرام بڑھا کر گزشتہ 16؍ ماہ کے دوران صارفین کی جیبوں سے اضافی 120؍ ارب روپے نکال لیے۔ نئی پیشرفت اُس وقت سامنے آئی ہے جب کمیشن نے 362؍ ارب روپے مالیت کے مشکوک بے نامی لین دین کا سراغ لگایا۔یہ لین دین گزشتہ پانچ سال کے دوران 6؍ ملین میٹرک ٹن چینی کی فروخت کا نتیجہ بتایا جا رہا ہے۔ کمیشن کی طرف سے 6؍ شوگر کمپنیوں کا فارنسک کرنے والی 9؍ آڈٹ ٹیموں میں سے ایک ٹیم کے عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط بتایا کہ 50؍ ہزار غیر رجسٹرڈ خریداروں کا پتہ لگایا گیا ہے۔ ان میں سے 40؍ ہزار نے اپنے ٹیکس ریٹرن جمع نہیں کرائے۔ہمیں شک ہے کہ مل مالکان نے ایسا کرکے اربوں روپے کا ٹیکس ادا نہیں کیا۔ انہوں نے کہا کہ ہم ان 9؍ شوگر ملوں کے سرور سے حاصل ہونے والے خصوصی ڈیٹا کا جائزہ لے رہے ہیں جن کے متعلق شک ہے کہ انہوں نے سیکڑوں بروکرز اور آڑھتیوں کے ذریعے کھاتوں کے بغیر ہی گنا خریدا ہے، اور نتیجتاً زیادہ سے زیادہ منافع کمانے کیلئے مارکیٹ سپلائی میں ہیرا پھیری کی ہے۔ جیو نیوز کی جانب سے حاصل کی جانے والی خصوصی معلومات کے مطابق، حمزہ شوگر ملز لمیٹڈ نے 31؍ ہزار غیر رجسٹرڈ خریداروں کو چینی فروخت کی۔زاہد گشکوری کی رپورٹ کے مطابق ان میں سے 28؍ ہزار نے کبھی ٹیکس ریٹرن داخل نہیں کیا۔ مرحوم حاجی نثار کے ملکیتی اس یونٹ کو 2017ء کے دوران وفاقی اور صوبائی حکومت سے 213؍ ملین روپے کی سبسڈی ملی۔ جہانگیر ترین کی ملکیت گروپ جے ڈبلیو ڈی نے 4؍ ہزار غیر رجسٹرڈ خریداروں کو چینی فروخت کی جن میں سے 86؍ نے ایف بی آر میں اپنے ریٹرن داخل نہیں کیے۔مسٹر ترین کی ملوں کو وفاقی و صوبائی حکومتوں سے 2017ء میں اور 2019ء میں چینی برآمد کرنے کیلئے فریٹ سپورٹ کی مد
میں 2.3؍ ارب روپے کی سبسڈی ملی۔ المعیز شوگر مل نے 1700؍ غیر رجسٹرڈ خریداروں کو چینی فروخت کی جن میں سے 75؍ ٹیکس ادا نہیں کرتے۔جہانگیر ترین کے کزن مسٹر شمیم خان اور ان کے بیٹے نعمان خان کو بھی وفاق سے اور ساتھ ہی پنجاب سے 2017ء اور 2019ء میں مجموعی طور پر ایک ارب روپے کی سبسڈی ملی۔ خصوصی تفصیلات سے معلوم ہوا ہے کہ پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر حمزہ شہباز اور ان کے بھائی سلمان شہباز کی العربیہ شوگر ملز نے 1289؍ غیر رجسٹرڈ شدہ خریداروں کو چینی فروخت کی جن میں سے 1200؍ نے کبھی ٹیکس ہی نہیں دیا۔وفاقی وزیر خسرو بختیار کی گھوٹکی میں قائم الائنس شوگر ملز نے 900؍ غیر رجسٹرڈ خریداروں کو چینی فروخت کی جن مین سے 75؍ نے ٹیکس نہیں دیا۔ ہنزہ اول اور ہنزہ دوم شوگر ملز لمیٹڈ نے 1100؍ غیر رجسٹرڈ خریداروں کو چینی فروخت کی جب میں سے 117؍ فائلر نہیں تھے۔ دونوں ملوں کو وفاق اور پنجاب حکومت کی طرف سے 2017ء اور 2017ء میں 429؍ ملین روپے کی سبسڈی ملی۔چوہدری ادریس، چوہدری محمد سعید اور چوہدری وحید ان دونوں ملوں کے مالک ہیں۔ انکوائری کمیشن نے 3؍ ہزار بروکرز اور آڑھتیوں کی بھی شناخت کی ہے جنہوں نے مقامی شوگر مارکیٹ میں اجارہ داری کیلئے کام کیا اور ساتھ ہی مل مالکان کی مدد کرکے انہیں بھاری منافع کمانے میں مدد کی، یہ تمام رقم صارفین کی جیبوں سے نکالی گئی۔ اعداد و شمار کو ایک جگہ جمع کرنے کے کام پر مامور ایک عہدیدار نے جیو نیوز کو بتایا کہ ہم نے اسٹیٹ بینک آف پاکستان سے 295؍ بروکرز کی تفصیلات حاصل کر لی ہیں
، ہماری تحقیقات میں بروکرز پر بھی توجہ مرکوز رکھی جا رہی ہے۔ان میں سے زیادہ تر کا تعلق لاہور کی اکبری منڈی اور بابر سینٹر اور کراچی کے جوڑیا بازار سے ہے، یہ لوگ چینی کی مقامی قیمتوں کے معاملے میں اجارہ داری کو کنٹرول کر رہے ہیں۔ مل مالکان نے گزشتہ پانچ سال کے دوران براہِ راست کوئی ٹیکس (انکم ٹیکس) نہیں دیا جبکہ کچھ نے تو اپنے کاروبار میں خسارہ ظاہر کرتے ہوئے 7.8؍ ارب روپے کے ری فنڈز بھی حاصل کیے ہیں۔انہوں نے کہا کہ کمیشن اس بات پر غور کر رہا ہے کہ زیادہ وقت حاصل کرکے مل مالکان کی جانب سے ٹیکس چوری کے معاملے کی بھی تحقیقات کی جائے، ان ملوں نے مجموعی طور پر 6.4؍ ملین میٹرک ٹن چینی کسی حساب کتاب (آئوٹ آف بُکس) فروخت کی اور بروکرز کے ساتھ مل کر صنعت کاروں نے ٹیکس ادا نہیں کیا بالخصوص سیلز ٹیکس نہیں دیا۔ تحقیقات کاروں نے دعویٰ کیا ہے کہ مل مالکان اور بروکرز نے چکمہ دے کر گزشتہ پانچ سال کے دوران کھاتوں سے باہر (ٹیکس ادا کیے بغیر کی گئی فروخت) 33؍ ارب روپے کی چینی فروخت کی۔اس حساب کو علیحدہ علیحدہ کرکے پیش کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ 2015-16ء کے دوران 4.9؍ ارب روپے کی 1.12؍ ملین میٹرک ٹن، 2016-17ء کے دوران 6.1؍ ارب روپے کی 1.55؍ ملین میٹرک ٹن، 2017-18ء کے دوران 5.9؍ ارب روپے کی 1.45؍ ملین میٹرک ٹن، 2018-19ء کے دوران 5؍ ارب روپے کی 1.15؍ ملین میٹرک ٹن جبکہ 2019-20ء کے دوران 11؍ ارب روپے کی 1.1؍ ملین میٹرک ٹن چینی فروخت کی گئی۔ ان شوگر ملوں نے مجموعی طور پر مقامی و بین الاقوامی مارکیٹس میں 905؍ ارب روپے کی چینی فروخت ی اور اس کیلئے صوبائی اور وفاقی حکومت سے گزشتہ تین سال کے دوران 24.9؍ ارب روپے کی سبسڈی بھی وصول کی۔مل مالکان نے مقامی مارکیٹ میں 709؍ ارب روپے کی
چینی فروخت کی جبکہ برآمد کے ذریعے 196؍ ارب روپے کی چینی فروخت کی۔ گزشتہ چار سال کے دوران، ان ملوں نے ملک کی 38؍ فیصد شوگر مارکیٹ پر اپنا قبضہ برقرار رکھا اور 2017-18ء میں 262؍ ارب روپے وصول کیے جب کہ 2019ء اور 2020ء میں بالترتیب 335؍ ارب روپے اور 172؍ ارب روپے مقامی مارکیٹ میں چینی فروخت کرکے کمائے۔باقی ماندہ 62؍ فیصد شوگر انڈسٹری کو کسی بھی طرح کی انکوائری یا فارنسک آڈٹ کا سامنا نہیں ہے۔ صرف 9؍ مل مالکان ایسے ہیں جنہیں شوگر کمیشن کے غیض و غضب کا سامنا ہے۔ کمیشن سے وابستہ کچھ افسران نے انٹرویو کے دوران جیو نیوز کو بتایا کہ تحقیقات کرنے والی ٹیموں کو ایسے تقریباً 36؍ ایسے بینک اکائونٹس کا پتہ چلا ہے جو مختلف شوگر ملوں کے ملازمین کے نام پر کھلوائے گئے اور ان میں گزشتہ پانچ سال کے دوران 500؍ ارب روپے کا لین دین ہوا ہے۔یہ سب بے نامی لین دین (ٹرانزیکشنز) ہے اور حکام کا دعویٰ ہے کہ آئندہ دنوں میں ہزاروں مزید مشکوک لین دین کا پتہ چل سکتا ہے۔ بظاہر ان ہی لین دین کے ذریعے مل مالکان نے بھاری نقد رقم کمائی ہے کیونکہ انہوں نے ممکنہ خریداروں کے ساتھ غیر تحریری معاہدے کرکے زیادہ منافع کمانے کیلئے ٹیکس چوری کیا۔ اس حوالے سے پی ٹی آئی کے رہنما جہانگیر ترین نے شوگر کمیشن کے قیام پر شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ کمیشن صرف ان ہی کی ملوں پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہے۔ انہوں نے اس نمائندے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ کمیشن ان کی ملوں پر توجہ دے رہا ہے، باقی لوگ جو پی ٹی آئی کا حصہ ہیں ان کی ملوں کیخلاف تحقیقات کیوں نہیں کی جا رہیں۔ انہوں نے کہا کہ 25؍ تاریخ کو رپورٹ آنا تھی، میں اس کے بعد فیصلہ کن لائحہ عمل اختیار
کروں گا۔ تاہم، میں وزیراعظم عمران خان سے رابطے میں ہوں۔انہوں نے سوال کیا کہ شوگر کمیشن کا ہدف کیا ہے اور اس کے کام کرنے کے شرائطِ کار (ٹرمز آف ریفرنس) کیا ہیں، صرف 9؍ شوگر ملوں کی اسکروٹنی کیوں ہو رہی ہے، 80؍ دیگر شوگر ملوں کا فارنسک آڈٹ کیوں نہیں ہو رہا اور اس مخصوص آڈٹ کے پیچھے کیا مقاصد کار فرما ہیں۔ جہانگیر ترین کا کہنا ہے کہ انکوائری کمیٹی اور نہ ہی کمیشن نے مجھ سے رابطہ کرکے میرا موقف معلوم کرنے کی کوشش کی ہے۔میں کمیشن کی رپورٹ دیکھ کر ہی آگے کا فیصلہ کروں گا۔ میں نے پی ٹی آئی کا ساتھ ایک کاز کیلئے دیا تھا لیکن آج میں مایوس ہوں لیکن میں پی ٹی آئی کے ساتھ ہوں کیونکہ اقتدار میں آنے کیلئے میں نے پارٹی کیلئے قربانیاں دی ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ میں نے تمام ٹیکس ادا کیے ہیں۔خسرو بختیار کی ملوں کے معاملے میں انہوں نے کہا کہ میں رپورٹ آنے تک کوئی تبصرہ نہیں کرنا چاہتا۔ غیر رجسٹرڈ خریداروں کو چینی فروخت کرنے کے معاملے پر انہوں نے جیو نیوز کو بتایا کہ یہ ایف بی آر کی کوتاہی ہے، مل مالکان کی نہیں۔انہوں نے کہا کہ میری شوگر ملوں نے کوئی بے نامی لین دین کیا ہے اور نہ ہی کھاتوں سے باہر چینی
فروخت کی ہے۔ دوسری جانب شوگر مل مالکان نے ایف آئی اے کی انکوائری کو یکطرفہ اور پروپیگنڈا قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس معاملے کی تحقیقات کرنے والے افسران کو اس شعبے کا تجربہ ہے اور نہ ہی ان کے پاس معلومات۔ ذرائع کے مطابق، انہوں نے کہا ہے کہ ایف آئی اے کی رپورٹ گمراہ کن اندازوں پر مبنی تھی۔انہوں نے کہا کہ تحقیقات کرنے والوں کو یہ بھی نہیں معلوم کہ پاکستان میں شوگر بزنس وہ واحد بزنس ہے جس میں گنے کی قیمت کا تعین تو کیا جاتا ہے لیکن چینی کی قیمت فکس نہیں کی جاتی۔ انہوں نے کہا کہ جس عرصہ کی تحقیقات کی جا رہی ہے اس میں چینی کی قلت نہیں ہوئی۔انہوں نے کہا کہ فارورڈ ٹھیکوں کا سلسلہ پوری دنیا میں رائج ہے اور مل مالکان کا جوا سے کوئی لینا دینا نہیں۔ رپورٹ میں یہ تو بتایا گیا تھا کہ کہ دسمبر 2018ء میں چینی کی قیمت 51؍ روپے فی کلوگرام تھی لیکن یہ نہیں بتایا گیا تھا کہ یہ چینی 2017-18ء میں تیار کی گئی تھی۔مل مالکان کا کہنا ہے کہ اگر انہیں انصاف نہ ملا تو وہ عدالتوں کا دروازہ کھٹکھٹانے پر مجبور ہو جائیں گے۔۔۔۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں