ماسلام آباد(پی این آئی)سلم لیگ ن کی مرکزی ترجمان مریم اورنگزیب نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ‘اپوزیشن لیڈر میاں شہباز شریف لندن سے وطن واپس آرہے ہیں، جس کا مقصد مشکل کے اس وقت میں عوام کے درمیان پہنچنا ہے۔مریم اورنگزیب نے مزید بتایا کہ شہباز شریف لندن سے اسلام آباد ایئرپورٹ پہنچیں گے۔ان کا مزید
کہنا تھا کہ اگلے ہفتے سابق وزیراعظم نواز شریف کی سرجری بھی ہونی ہے، لیکن اس کے باوجود شہباز شریف عوامی مشکلات کو مد نظر رکھتے ہوئے وطن واپس آرہے ہیں۔دوسری جانب شہباز شریف نے لندن میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے موجودہ حالات میں ملک کو لاک ڈاؤن کرنے کا مطالبہ کیا اور وہاں سے وطن واپسی کے لیے روانہ ہوئے۔شہباز شریف گذشتہ برس 19 نومبر کو اپنے بھائی میاں نواز شریف کے علاج کی غرض سے لاہور سے لندن کے لیے روانہ ہوئے تھے۔نواز شریف کو لاہور ہائی کورٹ کے 16 نومبر 2019 کے فیصلے کے تحت چار ہفتوں کے لیے غیر مشروط طور پر علاج کی غرض سے بیرون ملک جانے کی اجازت دی گئی تھی اور شہباز شریف بھی اسی وقت سے لندن میں مقیم تھے۔دوسری جانب وفاقی وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے شہباز شریف کی واپسی کو ‘فلائٹ آپریشن بند ہونے کے خوف کا موجب قرار دیتے ہوئے وزیراعظم عمران خان سے مطالبہ کیا ہے کہ انہیں 14 دن کے لیے میو ہسپتال کے قرنطینہ میں رکھا جائے۔ٹوئیٹرپر اپنے پیغام میں فواد چوہدری نے کہا: ‘میری وزیر اعظم سے اپیل ہے کہ شہباز شریف لیڈر آف اپوزیشن ہیں ان کے لیے خصوصی اجازت دی جانی چاہیے اور 14 دن ان کو میو ہسپتال میں کو آرٹین کرایا جائے تا کہ انہیں احساس ہو کہ ہسپتال کی کیا اہمیت ہے۔بعدازاں انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں فواد چوہدری نے کہا کہ ‘میں وزیراعظم سے مطالبہ کرتا ہوں کہ شہباز شریف کو وطن واپس آنے دیں اور انہیں واپس پہنچتے ہی ایئرپورٹ سے لاہور کے میو ہسپتال میں واقع قرنطینہ سینٹر منتقل کردیا جائے تاکہ نہ صرف حفاظتی خدشات دور ہوں بلکہ انہیں یہ اندازہ بھی ہو کہ جو پیسہ انہوں نے سڑکوں، میٹرو بس، ٹرینوں اور پلوں پر ضائع کیا وہ ہسپتالوں کی تعمیر پر خرچ کیوں نہیں کیا؟فواد چوہدری کا مزید کہنا تھا کہ ‘جب 14 دن وہ خود ہسپتال میں رہیں گے تو انہیں سہولیات کے فقدان کا اندازہ ہوگا۔وفاقی وزیر نے یہ سوال بھی اٹھایا کہ ‘چھ ماہ سے زائد عرصے بعد شہباز شریف کو عوام کا درد ستانے لگا ہے، اس سے پہلے وہ باہر کیوں چھپے بیٹھے تھے؟دوسری جانب پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی کی قیادت میں بھی آج رابطہ ہوا، جس کے دوران اپوزیشن کی جانب سے متحد ہوکر کرونا وائرس کے پھیلاؤ کے موجودہ حالات میں عوامی مشکلات کم کرنے پر اتفاق ہوا ،،،،،،،،،،،،،،،،،،،پاکستان نیوز انٹرنیشنل (پی این آئی) قابل اعتبار خبروں کا بین الاقوامی ادارہ ہے جو 23 مارچ 2018 کو برطانیہ کے دارالحکومت لندن میں قائم کیا گیا، تھوڑے عرصے میں پی این آئی نے دنیا بھر میں اردو پڑہنے، لکھنے اور بولنے والے قارئین میں اپنی جگہ بنا لی، پی این آئی کا انتظام اردو صحافت کے سینئر صحافیوں کے ہاتھ میں ہے، ان کے ساتھ ایک پروفیشنل اور محنتی ٹیم ہے جو 24 گھنٹے آپ کو باخبر رکھنے کے لیے متحرک رہتی ہے، پی این آئی کا موٹو درست اور بروقت اور جامع خبر ہے، پی این آئی کے قارئین کے لیے خبریں، تصاویر اور ویڈیوز انتہائی احتیاط کے ساتھ منتخب کی جاتی ہیں، خبروں کے متن میں ایسے الفاظ کے استعمال سے اجتناب برتا جاتا ہے جو نا مناسب ہوں اور جو آپ کی طبیعت پر گراں گذریں، پی این آئی کا مقصد آپ تک ہر واقعہ کی خبر پہنچانا، اس کے پیش منظر اور پس منظر سے بر وقت آگاہ کرنا اور پھر اس کے فالو اپ پر نظر رکھنا ہے تا کہ آپ کو حالات حاضرہ سے صرف آگاہی نہیں بلکہ مکمل آگاہی حاصل ہو، آپ بھی پی این آئی کا دست و بازو بنیں، اس کا پیج لائیک کریں، اس کی خبریں، تصویریں اپنے دوستوں اور رابطہ کاروں میں شیئر کریں، اللہ آپ کا حامی و ناصر ہو، ایڈیٹر
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں