انتہا پسندی کے خاتمے کے لیے ایک اہم پیش رفت کرتے ہوئے پاکستان نے عالمی سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر کالعدم تنظیموں سے منسلک سیکڑوں اکاؤنٹس کی رپورٹنگ اور بلاکنگ کا عمل تیز کر دیا ہے، ساتھ ہی عالمی برادری سے شدت پسندانہ پراپیگنڈے کے خلاف یکساں عزم اپنانے کی اپیل بھی کی گئی ہے۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق، نیشنل سائبر کرائم انویسٹی گیٹو ایجنسی اور پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (PTA) نے اقوام متحدہ، امریکہ اور برطانیہ کی جانب سے کالعدم قرار دی گئی تنظیموں جیسے تحریک طالبان پاکستان، بلوچ لبریشن آرمی اور بلوچ لبریشن فرنٹ سے منسلک 850 سے زائد سوشل میڈیا اکاؤنٹس رپورٹ کیے۔ ان میں سے 533 اکاؤنٹس، جن کے فالوورز کی تعداد 20 لاکھ سے زیادہ تھی، بلاک کیے جا چکے ہیں جبکہ باقی پر کارروائی جاری ہے۔
حکومت کی کثیر الجہتی حکمت عملی میں درج ذیل اقدامات شامل ہیں:
- فیس بک، انسٹاگرام، ٹک ٹاک، ایکس (ٹوئٹر)، ٹیلیگرام اور واٹس ایپ پر موجود دہشت گردی سے منسلک اکاؤنٹس کی رپورٹنگ اور ان کے ڈیٹا کی فراہمی کی باقاعدہ درخواست۔
- پی ٹی اے اور عالمی سوشل میڈیا کمپنیوں کے نمائندوں کے درمیان براہ راست ملاقاتیں، تاکہ بروقت اور مؤثر کارروائی ممکن ہو سکے۔
- وفاقی وزیر آئی ٹی شیزا فاطمہ خواجہ نے ٹیلیگرام حکام سے خصوصی آن لائن ملاقات کی، جس سے غیرمعمولی تعاون حاصل ہوا، حالانکہ پاکستان میں ٹیلیگرام پر پابندی عائد ہے۔
- 24 جولائی 2025 کو وزیر مملکت طلال چوہدری اور بیرسٹر عقیل نے مشترکہ میڈیا بریفنگ میں عالمی و مقامی میڈیا سے اپیل کی کہ وہ AI پر مبنی خودکار مواد بلاکنگ سسٹم اپنائیں۔
حکومتی ڈیٹا کے مطابق، فیس بک اور ٹک ٹاک نے 90 فیصد سے زائد پاکستانی درخواستوں پر عمل کیا، جبکہ ٹیلیگرام نے بھی بھرپور تعاون کیا۔ اس کے برعکس، ایکس (ٹوئٹر) اور واٹس ایپ کا ردعمل مایوس کن رہا، جن کی عمل درآمد کی شرح صرف 30 فیصد رہی۔
حکام کے مطابق، پاکستان کا الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا شدت پسند پراپیگنڈے سے پاک ہے، مگر شدت پسند عناصر سوشل میڈیا کے ذریعے تشدد کو فروغ دینے، نوجوانوں کی ذہن سازی اور خوف پھیلانے کے لیے سرگرم ہیں۔
اس ضمن میں حکومت پاکستان نے عالمی سوشل میڈیا پلیٹ فارمز سے تین نکاتی مطالبہ کیا ہے:
- دہشت گرد عناصر سے منسلک تمام اکاؤنٹس مستقل طور پر بند کیے جائیں۔
- جدید AI ٹیکنالوجی کے ذریعے شدت پسند مواد کو فوری طور پر ہٹایا جائے۔
- پاکستان کے ریگولیٹری و سکیورٹی اداروں سے براہِ راست اور فوری رابطہ قائم کیا جائے۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں