اسلام آباد(پی این آئی)پاکستان میں حکومت انٹرنیٹ پر سوشل میڈیا کو کنٹرول کرنے کے لیے قومی سطح کا فائر وال لگا رہی ہے جس کے ذریعے سوشل میڈیا کے مختلف پلیٹ فارمز جیسے ٹیکنالوجی کی معروف کمپنی میٹا کافیس بک، انسٹاگرام، تھریڈ، ایلون مسک کا ایکس (سابقہ ٹویٹر)، یوٹیوب اور دیگر سوشل و ڈیجیٹل میڈیاسائٹس کو کنٹرول کیا جا سکے گا۔
حکومت پاکستان کایہ فیصلہ اس وقت سامنےآیاجب ریاست مخالف پروپیگنڈہ عروج پکڑ چکا ہے یہ فائر وال ریاست مخالف نیگیٹو پروپیگنڈے پر کام کرنے والے اکاؤنٹس کے انٹرنیٹ پروٹوکول (آئی پی) ایڈریسز کو فوری طور پر پکڑنے میں کامیاب ہو جائے گی اور ان کے خلاف کارروائی کرنے کے قابل بنائے گی۔
خیال رہے کہ فائر وال سعودی عرب، خلیجی ممالک اور چین کی طرح کام کرنے والا ہو گا جہاں سے ریاست کسی بھی ویب سائٹ اور سوشل میڈیا پلیٹ فارم کو اپنی مرضی سے کنٹرول کرتی ہے، حکومت یہ فائر وال کا سسٹم چین سے لے رہی ہے، یہ سسٹم کیسے کام کرے گا اور اس کی قیمت کیا ہے حکومت قیمت ادا کرے گی یا انٹرنیٹ فراہم کرنے والی کمپنیاں ادا کریں گی ، یہ سسٹم کس ادارے کے کنٹرول میں ہوگا فی الحال اس بارے میں حکومت پاکستان کی جانب سے معلومات سامنے نہیں آئیں۔
فائر وال سسٹم کا مقصد کیا ہے؟
فائر وال کا سسٹم بنیادی طور پر انٹرنیٹ ٹریفک کو فلٹر کرتا ہے، یہ انٹرنیٹ گیٹ ویز پر نصب ہوکر انٹرنیٹ اپ لنک اور ڈاؤن لنک ہوتا ہے،اس فائر وال کی مدد سے ناپسندیدہ و بہودہ مواد شیئر کرنے والی ویب سائٹس، سوشل میڈیا پلیٹ فارمز اور انٹرنیٹ کے مواد کو کنٹرول کیا جا تا ہے، ایسا کوئی بھی مواد جو پروپیگنڈہ کیلئے شیئر کیا گیا ہوگا حکومت اس مواد کو فائر وال کے ذریعے بلاک کر سکتی ہے۔
حکومت فائر وال سسٹم سے مدد حاصل کر کے کسی بھی مواد کی اصل یعنی جہاں سے سب سے پہلے اس موادکو پوسٹ کیا گیا ہوگا، اس کا انٹرنیٹ پروٹوکول (آئی پی) ایڈریسز سامنے آنے کے بعد مواد کے تخلیق کار کے خلاف کارروائی کر سکے گی،فائر وال سسٹم کا بنیادی مقصد انٹرنیٹ ٹریفک کو فلٹر کرنا ہے۔
فائر وال سسٹم سے بینکوں کو خطرہ ہے؟
فائر وال سسٹم بنیادی طور پر انٹرنیٹ ٹریفک کو فلٹر کرتا ہے، انٹرنیٹ ٹریفک فلٹر کرنے کیلئے زیادہ تر انٹرنیٹ ٹریفک انکرپٹڈ ہوتی ہےاگر ایسا کام ہوا تو پہلے انٹرنیٹ ٹریفک کو ڈی کرپٹ کرنا پڑے گا جس سے ای کامرس متاثر ہو گی اور انٹرنیٹ بینکنگ پر بھی اثر پڑے گا اس کے ساتھ ساتھ سیکیورٹی اور پرائیویسی بھی بے حد کمزور ہو جائے گی۔
اگر انٹرنیٹ ٹریفک کو کوڈ کرپٹ کیا جاتا ہے تو بینکوں کو بھی خطرہ لاحق ہوسکتا ہے کیونکہ آن لائن خدمات استعمال کرنے والے بینکوں کے پاس ورڈ فائر وال کو کنٹرول کرنے والوں کے پاس جاسکتے ہیں، ڈکرپشن کے بعد ہیکر کے لیے اس سائٹ تک رسائی حاصل کرنا زیادہ مشکل نہیں ہوگا، اس سے خطرات تو بڑھیں گے ہی ساتھ میں بینک کا نظام بھی محفوظ نہیں رہے گا۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں