جسم کے بغیر دماغ اپ لوڈ کرکے میٹا ورس میں کتنے سال تک زندہ رہا جا سکتا ہے؟ارب پتی شخص کا حیران کن دعویٰ

ماسکو(نیوزڈیسک) اس خاکی جسم کے ساتھ انسان تمام تر کاوشوں کے باوجود اپنی زندگی میں اضافہ نہیں کر سکاتاہم اب ایک روسی ارب پتی شخص نے جسم کے بغیر ’میٹا ورس‘ میں انسان کے 150سال زندہ رہنے کا حیران کن دعویٰ کر دیا ہے۔ ڈیلی سٹار کے مطابق دمتری اتسکوف نامی اس کاروبار شخص کا کہنا ہے کہ اگر آپ اپنے جسم کو چھوڑ کر ایک ’ایپلی کیشن‘ کی صورت میں زندہ رہنے پر رضامند ہوں تو آپ اگلے ڈیڑھ سو سال تک زندہ رہ سکتے ہیں۔

اس کے لیے آپ کو اپنا دماغ انٹرنیٹ پر ’اپ لوڈ‘ کرنا ہو گا۔ دمتری اتسکوف کے مطابق انٹرنیٹ پر اپ لوڈ ہونے کے بعد انسانی دماغ کو مصنوعی ذہانت اور میٹاورس کی ٹیکنالوجی کی مدد سے ایک ایپلی کیشن کی شکل دی جائے گی۔ یہ ایپلی کیشن اس شخص کی مکمل شخصیت کی آئینہ دار ہو گی، اس کے ساتھ اسی طرح گفتگو کی جا سکے گی جیسے اس شخص کی زندگی میں لوگ اس سے کیا کرتے تھے۔ رپورٹ کے مطابق دمتری اتسکوف ایک میڈیا کمپنی کے مالک ہیں جس کا صدر مقام ماسکو ہے۔ وہ ’2045پراجیکٹ‘ کا بھی حصہ ہیں۔ یہ پراجیکٹ عمر رسیدگی، حتیٰ کہ موت کے خاتمے کے لیے شروع کیا گیا ہے۔ دمتری سمیت اس پراجیکٹ سے وابستہ تمام لوگ پرامید ہیں کہ ایک دن آئے گا جب انسان لافانی ہو جائے گا اور وہ موت کو یکسر ختم کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ دمتری کا کہنا ہے کہ فی الوقت انسان کے مادی جسم کے ساتھ طبعی مدت سے زائد زندگی ممکن نہیں ہے تاہم مصنوعی ذہانت اور میٹاورس کی ٹیکنالوجیز کے ذریعے ہم ڈیڑھ سو سال تک زندہ رہ سکتے ہیں۔

2045ء تک ہم ایسے مصنوعی جسم بنانے میں کامیاب ہو جائیں گے، جس کے بعد لوگ انٹرنیٹ کی مدد سے اپنے پرانے جسم سے اس نئے مصنوعی جسم میں منتقل ہو سکیں گے اور اس طرح ایک طویل زندگی جی سکیں گے۔اس منصوبے کی کامیابی کے بعد لوگ اپنی زندگی میں توسیع اور ذاتی ترقی کے امکانات کے متعلق آزادانہ فیصلے کر سکیں گے اور جب ان کا پرانا جسم ناکارہ ہونے لگے گا تو نئے مصنوعی جسم میں منتقل ہو سکیں گے۔ واضح رہے کہ سپیس ایکس کے بانی ایلون مسک کی کمپنی ’نیورالنک‘بھی ’برین کمپیوٹر انٹرفیس‘ بنانے کے لیے تحقیق کر رہی ہے، جو لوگوں کو انجام کار پورا انسانی دماغ انٹرنیٹ پر اپ لوڈ کرنے کے قابل بنائے گی۔ اس کے علاوہ بھی کئی کمپنیاں ایسی ہیں جو انسان کے میٹاورس میں طویل عرصے تک زندہ رہنے کے مفروضے پر تحقیق کر رہی ہیں۔

تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں