کراچی (این این آئی)سگما موٹراسپورٹس نے کیو4 الیکٹرک کار کی 3 اقسام متعارف کروادیں جن کی بکنگ بھی جاری ہے۔ان اقسام کی گاڑیوں میں سب سے زیادہ قیمت کی گاڑی 21 لاکھ 25 ہزار روپے کی ہے۔سگماموٹراسپورٹس کیشریک بانی محمد عدیل خالد نیبتایا کہ مستقبل الیکٹرک گاڑیوں کا ہے
اورسگماموٹراسپورٹس الیکٹرک گاڑیوں کے کاروبار میں سب سے پہلے نمبر پرہونا چاہتا ہے۔کیو4 الیکٹرک کار کی قیمت 18 لاکھ 95 ہزارروپے ہے۔ شمسی توانائی سے چارج ہونیوالی اضافی آپشن کے ساتھ گاڑی کی قیمت 19 لاکھ 95 ہزارروپے ہے۔ اس گاڑی میں شمسی،بجلی اور پیٹرول سے چلنے والی خصوصیت کی قسم کی قیمت 21 لاکھ 25 ہزارروپے ہے۔سگما موٹراسپورٹس کا پاکستان میں گاڑیاں بنانے کا کوئی منصوبہ زیرغور نہیں۔عدیل خالد نے بتایا کہ ان کی کمپنی نئی منظور شدہ الیکٹریکل وہیکل پالیسی کے تحت دی گئی سہولیات حاصل نہیں کررہی۔ سگما اسپورٹس نے دو گاڑیوں درآمد کی ہیں اور اس کو متعارف کروانے کی تقریب بھی منعقد کی گئی ہے۔الیکٹرک گاڑیاں تیار کرنے والے ادارے جو الیکٹرک وہیکل پالیسی کی سہولیات سے مستفید ہونگے،ان کے پاس پاکستان میں پلانٹ لگانے کیلیے 2سے 3 سال ہونگے،اس لئے یہ ممکن نہیں کہ سگما موٹراسپورٹس ایسا کوئی پلانٹ لگاسکے۔ عدیل خالد نے مزید بتایا کہ جب مقامی ادارے پاکستان میں گاڑیاں تیار کرکے فروخت کیلیے مارکیٹ میں پیش کریں گے،اس وقت تک ان گاڑیوں کی قیمتیں اور سگما موٹرز کی درآمد کی گئی گاڑیوں کی قیمت سے زیادہ ہونگی۔عدیل خالد نے یہ بھی بتایا کہ پاکستان میں تیار ہونے والی گاڑیوں میں پلانٹ منٹینس اور لیبر کے اخراجات بھی شامل ہونگے۔ اس لیے اس بات کے کم
امکانات ہیں کہ الیکٹریکل وہیکل پالیسی کے تحت دی جانے والی ڈیوٹی کی چھوٹ کے انھیں فائدے حاصل ہوں۔سگما موٹراسپورٹس کا نام سگما موٹرز سے ملتا جلتا ہے جو 1994 سے ملک میں درآمد کی گئی رینج روورز گاڑیاں فروخت کررہی ہے۔ سگما موٹرز کے ایک عہدے دار نے بتایا ہے کہ انھیں دوسری کمپنی کے ملتا جلتا نام پر اعتراض ہے اور قانونی چارہ جوئی پر غور کررہے ہیں۔تاہم عدیل خالد نے بتایا کہ ان کا ادارہ 5 برس سے یہ کام کررہا ہے۔ انھوں نے چینی اسپورٹس بائیکس سے کام کا آغاز کیا تھا اور انھیں فخر ہے کہ پاکستان کی مارکیٹ میں اس نوعیت کی اسپورٹس بائیک میں ان کا سرکردہ کردار ہے، وہ اب گاڑیوں کے کاروبار میں بھی شامل ہوگئے ہیں۔سیکورٹی ایکسچینج کمیشن آف پاکستان سے سگما موٹراسپورٹس رجسٹرڈ نہیں ہے۔ تاہم سگما موٹرزلمیٹیڈرجسٹرڈ کمپنی ہے۔ انھوں نے بتایا کہ اگر وہ رجسٹرڈ کمپنی نہیں ہوتے تو انھیں گاڑیاں درآمد کرنے کی اجازت نہیں ملتی۔اس سے قبل انھوں نے پاکستان میں چینی الیکٹرک بائیکس متعارف کروائیں۔عدیل کا کہنا ہے کہ بائیک چلانے والوں کو بغیر آواز بائیک پسند نہیں آئی۔ یہ اس لئے ہوا کیوں کہ بائیک میں کوئی انجن یا کمبشن نہیں ہوتا اور اس ہی لئے آواز بھی نہیں ہوتی۔ یہ اہم وجہ تھی کہ پاکستان میں ان کی کمپنی کی لائی گئی الیکٹرک بائیکس کامیاب نہ ہوسکیں۔انھوں نے بتایاکہ لوگ چاہتے ہیں کہ ان کی موٹر سائیکل کی آواز
دو میل دور سے سنائی دے،کچھ سمپل بائیکس پاکستان میں لائی گئیں لیکن انھیں پذیرائی نہیں ملی کیوں کہ الیکٹرک بائیکس میں آواز ہی نہیں ہوتی۔ان سے جب الیکٹرک کار کے برینڈ کے بارے میں پوچھا گیا تو انھوں نے بتایا کہ یہ چینی گاڑی ہے اور اس کا اصل برینڈ نام کاغذات میں درج ہے۔عدیل نے اس بات کی تصدیق کی کہ دو کیو4 گاڑیاں جوانہوں نے درآمد کیں وہ چیری کیو کیو برینڈ نہیں تھیں۔ چین کی چیری بھی کیو4کے نام سے گاڑی بناتی ہے۔ یونائیٹڈ موٹرز نے چیری کیو کیو پاکستان میں متعارف کروائی اور اس کا نام الفا سے تبدیل کیا۔ یونائیٹڈ موٹرز کوگرین فیلڈ اسٹیٹس حاصل ہے۔انجینئرنگ ڈیولپمنٹ بورڈ کے جنرل منیجرعاصم ایاز نے بتایا کہ پاکستان میں گاڑیاں درآمد کرنے اور فروخت کرنے کی اس طرح ہی اجازت ہے جیسے آڈی اور بی ایم ڈیبلو کررہی ہے۔انھوں نے بتایا کہ پاکستان میں ایسا کوئی قانون نہیں کہ جو ان گاڑیوں کی فروخت روک سکے۔ تاہم انجینئرنگ ڈیولپمنٹ بورڈ اپنی ویب سائٹ پر ایسی کمپنیوں کی فہرست جاری کرے گی جن کے پاس پاکستان میں گاڑیاں فروخت کرنے کا اجازت نامہ ہوگا۔انھوں نے مزید کہا کہ لوگوں کو گاڑیوں خریدنے سے قبل خود محتاط رہنا چاہئے۔ انجینئرنگ ڈیولپمنٹ بورڈ زیادہ سے زیادہ یہ کرسکتا ہے کہ ایک فہرست اپنی ویب سائٹ پر لگا دے جو مقامی گاڑیاں بنانے والے اداروں کی ہو،کیوں کہ مقامی ادارے گاڑی فروخت کرنے کے
بعد بھی سروس کی سہولت دیتے ہیں۔۔۔۔۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں