جاوید اختر کے بیان پر ذاکر خان کا دوٹوک مؤقف

بھارتی کامیڈی میں گالیوں کے استعمال پر ایک نئی بحث اس وقت سامنے آئی جب معروف نغمہ نگار اور اسکرین رائٹر جاوید اختر نے ایک کامیڈی شو میں اس رجحان پر تنقید کی۔

ان کا کہنا تھا کہ گالی دراصل زبان کی “مرچ” ہے، جس کا سہارا تب لیا جاتا ہے جب بات میں گہرائی یا ذہانت کی کمی ہو۔ یہ گفتگو بھارتی کامیڈین سپن ورما کے شو کے دوران ہوئی، جہاں جاوید اختر نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ جیسے پھیکے کھانے میں ذائقہ بڑھانے کے لیے مرچ ڈالی جاتی ہے، ویسے ہی کمزور گفتگو کو دلچسپ بنانے کے لیے سخت الفاظ شامل کیے جاتے ہیں۔ ان کے مطابق ایک ذہین اور حاضر جواب شخص کو اس سہارے کی ضرورت نہیں ہوتی، کیونکہ مضبوط زبان خود کافی ہوتی ہے۔

اس بیان کے بعد جاری بحث پر معروف کامیڈین ذاکر خان نے اپنا ردِعمل دیتے ہوئے جاوید اختر کے لیے احترام کا اظہار کیا، مگر ساتھ ہی ایک مختلف زاویہ بھی پیش کیا۔ ذاکر خان کا کہنا تھا کہ وہ جاوید اختر کو بے حد عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور بھارتی ادب و سنیما کے لیے ان کی خدمات کے معترف ہیں۔ ان کے مطابق جاوید اختر کا مؤقف اس ثقافتی اور لسانی پس منظر میں درست ہے جس کی وہ نمائندگی کرتے ہیں، تاہم تمام کامیڈینز کو ایک ہی معیار پر پرکھنا مناسب نہیں۔

ذاکر خان نے واضح کیا کہ وہ زبان کے استعمال کی بنیاد پر کامیڈینز کو جج کرنے کے حق میں نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہر فنکار کا اپنا منفرد انداز اور تخلیقی اظہار ہوتا ہے، جسے زبردستی ایک سانچے میں فٹ نہیں کیا جا سکتا۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر کسی کامیڈین کی فطری زبان میں سخت الفاظ شامل ہیں تو اسے یکسر ختم کرنا آسان نہیں۔ وقت کے ساتھ فنکار پختگی ضرور حاصل کرتا ہے اور اپنے مواد کو نکھارتا ہے، لیکن عوامی سطح پر تنقید یا انگلی اٹھانا نہ تو منصفانہ ہے اور نہ ہی مثبت۔

تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں

close