بالی وڈ اداکار سیف علی خان پر حملہ کرنے والے ملزم کے چہرے کی شناخت کی رپورٹ سامنے آگئی۔
بھارتی میڈیا رپورٹس کے مطابق چہرے کی شناخت کی جانچ کی رپورٹ میں اس بات کی تصدیق ہوگئی ہے کہ 2 ہفتے قبل اداکار سیف علی خان کو ان کی رہائش گاہ کے اندر زخمی کرنے کے الزام میں گرفتار بنگلا دیشی شہری محمد شریف الاسلام کی تصویر سی سی ٹی وی کیمروں میں دکھنے والے شخص سے میل کھاتی ہے۔
ممبئی پولیس کے ایک اہلکار کے مطابق پولیس نے شریف الاسلام کے چہرے کی شناخت کے ٹیسٹ کرانے کا فیصلہ کیا تھا کیونکہ دعویٰ کیا جارہا تھا کہ سی سی ٹی وی کیمروں میں دکھائی دینے والا شخص کوئی اور ہے جب کہ پولیس نے کسی اور کو گرفتار کیا ہے۔پولیس کو جمعہ کو فارنزک سائنس لیبارٹری کی رپورٹ موصول ہوئی جس میں انکشاف ہوا کہ گرفتار ملزم اور مختلف سی سی ٹی وی فوٹیج میں دکھنے والا شخص ایک ہی ہے۔
اس سے قبل خبریں سامنے آئی تھیں کہ شریف اسلام کے فنگر پرنٹ کے نمونے جائے وقوعہ سے موصول ہونے والے فنگر پرنٹس سے مختلف ہیں۔ایک سینئر پولیس افسر نے بتایا کہ چہرے کی شناخت کی رپورٹ کے علاوہ ان کے پاس مضبوط تکنیکی شواہد ہیں جن میں سی سی ٹی وی فوٹیج (جو میڈیا رپورٹس میں سامنے نہیں آئی)، موبائل فون کی لوکیشن، اور آئی پی ڈی آر (انٹرنیٹ پروٹوکول کی تفصیلات کی رپورٹ) شامل ہیں۔
ملزم شریف الاسلام کے والد کا بیان:این ڈی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق شریف الاسلام کے والد محمد روح الامین نے اپنے بیٹے کی بنگلا دیشی نیشنلسٹ پارٹی (BNP) سے سیاسی وابستگی کی تصدیق کی اور دعویٰ کیا کہ وہ سیاسی ظلم و ستم سے بچنے کے لیے اپنے آبائی ملک سے فرار ہو ا۔
این ڈی ٹی وی سے ٹیلی فون پر بات چیت میں انہوں نے کہا کہ ان کا بیٹا بنگلا دیش سے فرار ہو گیا کیونکہ اس کے خلاف سابق وزیر اعظم شیخ حسینہ کی حکومت کے طویل دور میں بے بنیاد مقدمات درج کیے گئے تھے۔انہوں نے دعویٰ کیا کہ شریف یہاں غیر محفوظ محسوس کرتا تھا اسی لیے وہ صرف کام تلاش کرنے کے ارادے سے بھارت گیا، سی سی ٹی وی تصاویر میرے بیٹے کی نہیں ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ شریف الاسلام کی شکل حملہ آور کی تصویر سے میل نہیں کھاتی۔
واضح رہے کہ سیف علی خان پر 16 جنوری کو ان کے باندرا کے گھر پر حملہ کیا گیا تھا اور اس واقعے میں انہیں کئی زخم آئے تھے۔ ملزم شریف الاسلام کو 19 جنوری کو تھانے کے لیبر کیمپ کے علاقے سے گرفتار کیا گیا تھا اور وہ اس وقت آرتھر روڈ سنٹرل جیل میں بند ہے۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں