چترال (گل حماد فاروقی) ضلعی انتظامیہ کی بڑی کاروائی۔ لاکھوں روپے مالیت کی غیر معیاری اور مضر صحت ذبح شدہ مرغیوں کی پوری گاڑی تلف کیا گیا۔ اسسٹنٹ کمشنر ثقلین سلیم کو محبر کے ذریعے اطلائی آئی تھی کہ چترال میں بعض عناصر غیر معیاری اور مضر صحت ذبح شدہ مرغیوں کا کاروبار کر رہا ہے۔ جس پر
انہوں نے ایڈیشنل اسسٹنٹ کمشنر شہزاد خان اور فوڈ سیفٹی اینڈ حلال فوڈ اتھارٹی کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر محمد شاکر اللہ کوہدایت کی کہ وہ اس کے حلاف کاروائی کرے۔ اے سی شہزاد خان نے اپنے عملہ کے ہمراہ اس گاڑی کا تعاقب کیا جو ایک کالے رنگ کا ڈاٹسن تھا اور اس میں ناقص کنٹینر رکھا تھا جس میں ریفریجریٹر یا کولنگ کا کوئی نظام ہی موجود نہیں تھا۔ اے سی شہزاد نے گاڑی کا معائنہ کیا تو اس گاڑی پر کوئی نمبر پلیٹ بھی نہیں لگا تھااور اس کے پاس جو نو ابجکشن سرٹیفیکٹ تھا وہ کسی ایک کمپنی کے مال لانے کیلئے تھا مگر کنٹینر کے اندر کسی اور کمپنی کا مال پڑا تھا اور ڈرائیور کے پاس یار خان نامی شحص جو چترال کا باشندہ ہے اس کے نام پر NOC پائی گئی مگراس این او سی میں باقاعدہ لکھا ہوا تھا کہ جو بھی مال لایا جائے وہ حفظان صحت کے اصولوں کے عین مطابق طریقے سے لایا جائے۔ اے سی شہزاد نے اس گاڑی کو اپنے تحویل میں لے لیکراسے اپنے دفتر لایا اور حلال فوڈ اتھارٹی کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر شاکر اللہ کو بھی اپنے دفتر بلایا تاکہ وہ اس گاڑی کا معائنہ کرے کہ آیا اس گاڑی میں پڑا ہوا مال صحیح بھی ہے یا نہیں۔ اے ڈی شاکر اللہ نے جب گاڑی اور مال کا معائنہ کیا تو اس میں کولنگ کا کوئی نظام ہی نہیں تھا نہ اس میں کوئی گیج نصب تھا جس سے گاڑی کے اندر کا درجہ حرارت ظاہر ہوتا ہو۔ اس کینٹینر کے اندر جو مال پڑا تھا وہ گرمی کی وجہ
سے حراب ہورہا تھا اور مزید یہ کہ جس کمپنی کیلئے این او سی لیا گیا تھا وہ اس کمپنی کا مال ہی نہیں تھا اس کے علاوہ اس بات کا بھی انکشاف ہوا کہ جاری کردہ این او سی یار خان کے نام پر تھا مگر مال کوئی اور شحص لارہا تھا۔ ضلعی انتظامیہ اور حلال فوڈ اتھارٹی نے مشترکہ طور پر یہ فیصلہ کیا کہ اس مال کو تلف کیا جائے اور مالک پر جرمانہ لگایا جائے تاکہ آئندہ وہ لوگوں کے صحت کے ساتھ کھلواڑ نہ کرے۔ مجسٹریٹ اور دیگر افسران کی نگرانی میں اس گاڑی کو دنین لے جاکر دریا کے کنارے گھڑے میں تلف کیا گیا اور مال لانے والے پر 25000 روپے جرمانہ بھی لگایا گیا۔ اے سی شہزاد نے جاری شدہ NOC کو اس بناء پر منسوح کردیا کہ اس کے ذریعے دھوکہ دہی کی کوشش کی گئی اور کسی اور کمپنی کا مال لایا گیا۔ میڈیا سے باتیں کرتے ہوئے اسسٹنٹ ڈائیریکٹر شاکر اللہ نے کہا کہ جو مال ہم نے تلف کیا وہ حفظان صحت کے اصولوں کے حلاف تھا کیونکہ اس گاڑی میں ٹھنڈا کرنے یعنی کوئی ریفریجریٹر ہی نہیں لگا ہوا ہے اس کا طریقہ یہ ہے کہ جہاں سے مال لایا جاتا ہے حاص کر ذبح شدہ پیک مرغیاں ان کو ایسے گاڑی میں لایا جائے جس میں کولنگ یعنی ٹھنڈا کرنے کا نظام موجود ہو اور اس کی درجہ حرارت منفی اٹھارہ ڈگری سنٹی گریڈ ہونا چاہئے۔ اس کے علاوہ ان کے پاس فوڈ اتھارٹی کا لائسسنس ہونا چاہئے اگر ان کے پاس یہ کاغذات نہ ہو تو اس مال کو تلف کیا
جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ چترال بازار میں کھال کے ساتھ ذبح شدہ مرغیوں پر ہم نے مکمل پابندی لگائی ہے اوران کو گرم پانی میں ڈال کر سارا جراثیم اور گندگی اس کے اندر جاتا ہے۔ اسسٹنٹ کمشنر شہزاد خان نے میڈیا کو بتایا اس گاڑی میں لایا جانے والا مال نہایت ناقص اور مضر صحت تھا اور اس گاڑی میں کوئی نہ تو ریفریجریٹر کا نظام تھا اور لوگوں کو دھوکہ دینے کی کوشش کرتے ہوئے ایک عام گاڑی کو فریج نما بنایا تھا ضلعی انتظامیہ کا اس معاملے میں زیرو ٹولیرنس ہے یعنی ہم کبھی بھی یہ برداشت نہیں کریں گے کہ کوئی عوام کی صحت کے ساتھ کھیلے۔ چترال کے سیاسی اور سماجی طبقہ فکر نے ضلعی انتظامیہ کی اس اقدام کو نہایت سراہا کہ وہ عوام کی صحت کا نہایت حیال رکھتے ہیں اور جو بھی عوام کے صحت کے ساتھ کھیلتا ہے ان کے حلاف کاروائی کرتے ہیں۔۔۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں