وانا (قسمت اللہ وزیر) جنوبی وزیرستان وانا تنائی جسیے پسماندہ علاقہ سے تعلق رکھنے والی سوشل میڈیا سٹار عاصمہ حفیظ وزیر کے گھر میڈیا ٹیمیں پہنچانا شروع ہوگئں۔ میڈیا سے بات کرتے ہوئے عاصمہ حفیظ نے کہا کہ میں ڈاکٹر بننا چاہتی ہوں، میرے علاقے میں بچیوں کے لیے سکول بنایا جائے۔ فٹ بال کھیلتے ہوئے وائرل
ہونے والی تصویر میں موجود وزیرستان کی عاصمہ حافظ کہتی ہیں کہ ان کے گاؤں تنائی میں بچیوں کے لیے پرائمری سے آگے کوئی سکول نہیں۔ وہ آگے پڑھنا چاہتی ہیں مگر چھٹی کلاس کے بعد لڑکوں کا سکول انہیں چھوڑنا پڑے گا۔ سکول بنانے کے لیے حکومت سے ان کی اپیل۔ انہوں نے کہاکہ گاؤں تنائی میں صرف پرائمری ایجوکیشن حاصل کی جاسکتی ہیں۔ مڈل ہائی سکول اور کالج تک تعلیم حاصل کرنے کی خواہش پر پانی پھر جاتی ہے۔ جسکی وجہ سے مجھے اپنے مستقبل کا بے حد اندیشہ ہیں۔ اس موقع پر آسماء حفیظ کے بھائی حمزہ حفیظ جو ایبٹ آباد کامسیٹ یونیورسٹی سے سافٹ وئیرانجنئیرنگ کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ ہماری فیملی بالخصوص والدین کی خواہش ہے کہ عاصمہ حفیظ وزیر ڈاکٹر بن جائے، لیکن بدقسمتی سے ہماری اس خواہش میں سب سے بڑی روکاٹ یہاں پر گرلز کیلئے پرائمری سے آگے تعلیمی اداروں کا نہ ہونا ہے۔ لیکن آسماء کی سکول سے لگاؤ کی خاطر ہم مجبور دوسری جگہ سے تعلیم دلوائینگے۔ انہوں نے پرنسپل القادر سکول شاہ حسین کی کوششوں سراہا۔ اس کے حوالے سے القادر پبلک سکول پرنسپل شاہ حسین نے کہا کہ میری خواہش ہے کہ بچیوں اور بچوں کو مساوی تعلیمی مواقع میسر آئے اور ساتھ ساتھ بچوں اور بچیوں کو سپورٹس سرگرمیوں حصہ لینے طرف راغب کرنے کی کوشش ہے۔ تعلیم وقت کی اور سپورٹس بہترین صحت
کیلئے ضروری ہیں اسمیں بچوں اور بچیوں میں تفریق نہیں ہونی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ میں کوشش کرتا ہوں کہ بچیوں کو دوسرے درجے مخلوق کا حساس نہ دو۔ اس موقع پر مولانا میراعظم وزیر نے کہا کہ تعلیم بچیوں اور بچوں کا مساوی حق ہیں اور ساتھ ساتھ انہوں نے کہا کہ یہاں پر گرلز ایجوکیشن کی سہولیات نہ ہونا قابل افسوس ہیں اس لیئے ہم حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وزیرستان میں گرلز ایجوکیشن کیلئے ہائی سکولز اور کالج بنایا جائے ۔ سوشل میڈیا ایکٹی ویسٹ حیات پریغال نے میڈیا کے ذریعے پیغام جاری کرتے ہوئے کہاکہ یقینن یہ ایک بہت طاقتور تصویر ہے! کیونکہ یہ بچی جنوبی وزیرستان وانا میں صرف ایک فٹبال کو لات نہیں مار رہی بلکہ قبائلیت کی سوچ کے اندر چھپی جہالت ، عورتوں کو ایک پرلے درجے کا انسان سمجھنے اور انکے استحصال کی سوچ ، انکو صرف بچے پیدا کرنے کی مشین سمجھنے جیسی سوچ، انکو صرف جانوروں کیطرح کام کروانے والی سوچ، عورتوں کے ساتھ اجتماعی سزاوں کی جاہلانہ سوچ ، انکو بغیر پوچھے، انکے بغیر مشورے کے انکو لولے لنگڑوں، بوڑھوں بابوں سے بیہانے کی سوچ، صنف نازک پر جنسی تشدد کرنے والوں کی سوچ ، انکو سوارہ میں دشمنی حل کرنے میں جانوروں کیطرح استعمال کرنے کی سوچ ، بازار میں انکو برقعے پہنا کر ایک دیوار کے ساتھ جانوروں کیطرح بٹھانے کی سوچ(انکے لئے کسی
بھی اڈے پر، بازار میں انتظار گاہ نہیں ہے) ، گاڑیوں میں انکو پیچھے جانوروں کے ساتھ بٹھانے اور خود مونچھوں کو تاو دیکر اگلی سیٹ میں بیٹھنے کی چودراہٹ کی سوچ ، عورت کی تعلیم و شعور کے خلاف پنپنے والی زمانہ جاہلیت کی سوچ کو لات مار رہی ہے۔۔۔۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں