چترال(گل حماد فاروقی) چترال کے مضافاتی علاقہ اورغوچ کے 3200 عوام پانی کی سہولت سے محروم رہے۔ ان لوگوں نے بار ہا پانی کی فراہمی کیلئے درخواستیں دی مگر کچھ ندارد۔جب یہ لوگ حکام سے مایوس ہوئے تو انہوں نے دھمکی دی کہ وہ احتجاج کے طور پر افغانستان کو ہجرت کریں گے تاہم اس وقت حکام نے
ان کو مناکر یہ یقین دلایا کہ ان کو ضرور پانی فراہم کی جائے گی۔اورغوچ کیلئے صوبائی حکومت نے 82 لاکھ روپے کی لاگت سے آبنوشی کا منصوبہ مکمل کیا ہے تاہم ابھی لوگوں کو پانی کی سپلائی لائن دینا باقی ہے۔ محکمہ پبلک ہیلتھ انجنئیرنگ نے تیس ہزار گیلن کی ایک ٹینکی بنائی ہے اور اس سے یہاں کے لوگوں کو پینے کی صاف پانی فراہم کی جائے گی۔ اس منصوبے کا افتتاح وزیر اعلےٰ خیبر پحتون کے معاون حصوصی برائے اقلیتی امور وزیر زادہ کیلاش نے کیا جنہوں نے علاقے کے لوگوں کو یقین دلایا کہ موجودہ حکومت ان کی مسائل حل کرنے میں کافی محلص اور سنجیدہ ہے۔ لوگوں نے خوشی میں مٹھائی بھی تقسیم کی اور ان کے ساتھ ساتھ صوبائی حکومت کا بھی شکریہ ادا کیا۔ فرید الحق اورغوچ کا باشندہ ہے ان کا کہنا ہے کہ یہاں کے خواتین سروں پر مٹکوں میں دریا اور دور دراز جگہوں میں ندیوں سے پانی لانے پر مجبور تھے مگر اس پانی کی وجہ سے اکثر بچے پیٹ کی بیماری میں مبتلا ہوتے اب صوبائی حکومت نے ان کیلئے پینے کی پانی کا بندوبست کیا ہوا ہے جس پر ہم نہایت خوش ہیں اور حکومت کا شکریہ ادا کرتے ہیں جو ہمارا دیرینہ مطالبہ پورا ہوا۔اور غوچ کے ایک اور رہائیشی عبدالحق کا کہنا ہے کہ یہاں کے لوگوں کیلئے پینے کی پانی کی شدید قلعت تھی اب پبلک ہیلتھ انجنیرنگ نے ایک ٹینکی بنائی ہے جس سے کسی حد تک ہمارا مسئلہ تو حل ہوگا مگر ہم صوبائی حکومت سے یہ بھی مطالبہ کرتے ہیں کہ ہمارے لئے مستقل بنیادوں پر پینے کی پانی کا بندوبست کرے کیونکہ یہ پانی جہاں سے آیا ہے وہ ہمارا آبپاشی کا ندی ہے جس سے نصف پانی ہماری کھیتوں کو سیراب کرتا ہے اور نصف پانی اس ٹینکی میں گرتا ہے جو ناکافی ہے۔ محمد آصف اور غوچ کا باشندہ ہے جو پنجاب میں مزدوری کرتا ہے ان کا کہنا ہے کہ ہمیں پانی کا بہت مسئلہ تھا ہم رہتے تو گھر سے باہر مگر چوبیس گھنٹے گھر کا فکر رہتا کیونکہ بچے چھوٹے تھے جو دور سے پانی نہیں لاسکتے تھے اور جب گھر والی مٹکے میں پانی لانے کیلئے باہر جاتی تھی تو گھر میں بچے اکثر گر پڑ کر زحمی ہوتے اب کسی حد تک ہمارا مسئلہ تو حل ہوگیا کہ ہماری خواتین کو سروں پر پانی لانے سے نجات مل گئی مگر ہم وزیر زادہ کے ذریعے صوبائی حکومت سے یہ بھی مطالبہ کرتے ہیں کہ شمسی توانائی سے چلنے والی موٹر کے زریعے ہمارے لئے رمبور یا جہاں پانی کا چشمہ موجود ہو وہاں سے پانی لایا جائے تاکہ مستقبل میں ہم ایک بار پھر ہجرت کرنے پر مجبور نہ ہو۔ واضح رہے کہ اورغوچ کیلئے ماضی میں چار انچ پائپ کے ذریعے پانی لانے پر کام شروع ہو ا تھا مگر وہ منصوبہ ناکامی سے دوچار ہوا اور اب ان چار سو پائپ کو دوبارہ اکھاڑ کر نکالا جاتا ہے وہ منصوبہ بری طرح ناکامی سے دوچار ہوا جس سے علاقے کے لوگوں میں کافی مایوسی پھیلی ہوئی تھی۔ ان پائپوں میں سے اکثر پائپ زنگ لگ کر حراب ہوئے، بعض سڑک کی تعمیر کے وقت ٹوٹ گئے، کچھ سیلاب کی ضد میں آکر بہہ گئے اور زیادہ تر پائپ عبد الولی خان بائی پاس روڈ کی تعمیر کے دوران متاثر ہوئے ان کو نکالنا پڑا اب تک یہ علاقہ آبپاشی اور آبنوشی دونوں قسم کے پانی سے محروم تھا۔ یہاں کے لوگ جب کسی کو پانی کی قلعت کا طعنہ دیتے تو حصوصی طور پر اور غوچ کا ذکر ضرور کیا جاتا کہ یہ اور غوچ نہیں ہے جہاں پانی نہیں ملتی۔۔۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں