وانا (قسمت اللہ وزیر ) علاقہ شکئی کے جنگلات کی بےدریغ کٹائی جاری، جنگل میدانوں میں تبدیل، محکمہ جنگلات کے عملے کی ملی بھگت سے جنگلات کو ایک عام گھاس کی طرح کاٹا جاتا ہے۔ موسم سرما کی آمد سے لکڑی کی مانگ میں غیر معمولی اضافے کے ساتھ ہی گھنے جنگل سے لکڑی ٹرالیوں، بڑی کیبن ڈاٹسن
اور ٹراکوں پر لاد کر روزانہ ہرے بھرے درختوں کو کاٹ کر قریبی ٹال پر فروخت کر دی جاتی ہے۔ کئی لوگ لکڑی سے کوئلہ بنا دیتی ہے۔ اس کے علاوہ متعدد لوگ لکڑی اور کوئلے کو قریبی ملک افغانستان لیا جا رہے ہیں ۔ محکمہ جنگلات کے افسران، ضلعی انتظامیہ اور ذمہ دار افراد سب کچھ جاننے کے باوجود خاموش تماشائی کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ اگر دیکھا جائے تو درحقیقت جنگلات کے” بے دریغ کٹاؤ“ کو نہ روکا گیا، تو دنیا میں بسنے والے تمام لوگوں کی زندگیوں کو موت کا خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔ زمین کے درجہ حرارت میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ ماہرین ماحولیاتی آلودگی سے بچاؤکے لیے زیادہ سے زیادہ درخت اور پودے لگانے پر زور دے رہے ہیں، جبکہ ہم زیادہ سے زیادہ کاٹنے میں مگن ہیں۔ پاکستان کا شمار ایسے ممالک میں ہوتا ہے جہاں”ماحولیاتی آلودگی“ نہایت خطرناک صورت اختیار کر چکی ہے۔ ہمارے ہاں ماحولیاتی آلودگی کا اہم سبب درختوں کی ”بے دریغ“ کٹائی ہے۔2011ء میں سروے کے مطابق پاکستان میں کل رقبے کے 5.1 فیصد علاقے پر جنگلات تھے، لیکن بدقسمتی سے اس وقت پاکستان سالانہ 42 ہزار ہیکٹر جنگلات سے محروم ہو رہا ہے۔ اقوام متحدہ کی تنظیم برائے فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن کی ایک رپورٹ کے مطابق اس وقت پاکستان میں جنگلات مجموعی طور پر کل 16 لاکھ 17 ہزار ہیکٹر رقبے پر ہیں جو مجموعی ملکی رقبے کا محض 2.2 فیصد بنتا ہے۔ ورلڈ بینک کی رپورٹ کے مطابق دنیا میں جنگلات کی شرح میں کمی والے کل 143 ملکوں کی فہرست میں پاکستان 113 نمبر پر موجود ہے۔علاقہ مکینوں کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ متعدد مرتبہ محکمہ جنگلات کے ضلعی افسران ، ضلعی انتظامیہ اور علاقے کی ذمہ دار بندے کو درختوں کی بےدریغ کٹائی کے بارے میں آگاہ کیا ہے۔ لیکن بدقسمتی سے ابھی تک اس نے کوئی ایکشن نہیں لیا، جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ان کے مابین گٹھ جوڑ ہے۔ علاقہ مکینوں کا کہنا ہے کہ ایک طرف وزیراعظم پاکستان عمران خان درخت لگانے کیلئے دن رات مہم جاری رکھے ہوئے ہیں تو دوسری جانب سر سبز و شاداب درختوں کی بےدریع کٹائی سوالیہ نشان بن چکی ہے۔ علاقے مکینوں کا کہنا ہے کہ جنگلات کے تحفظ کے لئے بہت سے ”موثر قوانین “موجود ہے لیکن اس پر عملدرآمد کی کمی ہے جس کی وجہ سے ٹمبر مافیا روز بروز طاقتور ہوتا جارہا ہے اور قانون کمزور۔جنگلات کی لکڑی کی نقل و حمل کے” پرمٹوں“ پر پابندی عائد کی جائے اور قانونی طور پر بھی اس کے کٹائی پر پابندی لگائی جائے ۔ جنگلات کے تحفظ کے لئے بھی بیس سالہ ایمرجنسی لگائی جائے، تاکہ جنگلات کے رقبے میں اضافہ کیا جا سکے۔ خیبر پختونخوا کی صوبائی حکومت نے سونامی بلین ٹریز کے نام سے درخت لگانے کا ایک بڑا منصوبہ شروع کیا ہے جس سے توقع کی جارہی ہے کہ ایک ارب تک پودے لگائے جائیں گے۔ یقینی طور پر اس سے موسمیات میں تبدیلی واقع ہوگی ، علاقہ مکینوں کا کہنا ہے کہ حکومت لوگوں کے آگاہی کے لئے ایک موثر مہم چلائے، لوگوں کو جنگلات کے” فوائد“ سے باخبر کیا جائے ان میں شعور پیدا کیاجائے کہ جنگلات کی کٹائی سے کون کونسی تباہی آسکتی ہے۔علاقہ مکینوں نے ممبر قومی اسمبلی علی وزیر، ممبر صوبائی اسمبلی و ڈیڈک چیئرمین نصیراللہ خان، کمشنر ڈیرہ اسماعیل خان یخیی اخونزادہ اور ڈپٹی کمشنر جنوبی وزیرستان خالد اقبال سے مطالبہ کیا ہے کہ جنوبی وزیرستان کے علاقہ شکئی کے جنگل کا معائنہ کیا جائے۔ اور جنگلات کو نقصان پہنچانے والے کے خلاف فوجداری مقدمات درج کروائے جائیں۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں