چترال(گل حماد فاروقی)چترال کے تاریحی قصبے دروش میں ایک ایسا علاقہ بھی ہے جو آج تک حکام کے ساتھ ساتھ میڈیا کے نظروں سے بھی اوجھل ہے۔ گوس نامی گاؤں پہاڑوں کے بیچ میں اونچائی پر واقع ہے۔ یہ گاؤں پہاڑوں کے چوٹیوں کی وجہ سے زمین سے نظر نہیں آتا صرف جہاز سے دکھائی دیتا ہے۔ اس گاؤں پر
آنکھ اوجھل پہاڑ اوجھل والا ضرب المثل بالکل فٹ آتی ہے۔ یہاں جانے کیلئے دروش گول کے پہاڑ کو عبور کرنا پڑتا ہے۔ گاؤں میں سات کی آبادی ہے مگر ان کیلئے اب تک نہ تو سڑک ہے اور نہ ہسپتال یا سکول۔ ایک غیر سرکاری ادارے نے یہاں جانے کیلئے چند سال پہلے ایک کچا راستہ بنایا۔ یہاں بچوں کے کا کہنا ہے کہ وہاں صرف ایک مکتب سکول کی بوسیدہ عمارت ہے جس میں بچوں کو ڈر لگتا ہے یہاں ابھی پرائمری سکول کوئی ڈسپنسری یا شفاحانہ تک نہیں ہے۔ لوگ اپنے مریضوں کوخاص کر خواتین کو بیماری کی حالت میں چارپائی پر ڈال کر دروش ہسپتال لے جاتے ہیں جو اکثر راستے ہی میں جاں بحق ہوتے ہیں۔چاہے طوفان، بادوباران ہو یا برف باری یہاں کے بہادر بچے تین گھنٹے پیدل سفر کرکے دروش سکول جاتے ہیں مگر واپسی پر زیادہ وقت اسلئے لگتا ہے کہ پہاڑ پر چڑھ کر آنا پڑتا ہے۔ گوس کی خواتین پہاڑوں کے بیچ چشموں سے پینے کی پانی سروں پر مٹکوں میں لاتی ہیں۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ ووٹ مانگنے کیلئے اکثر امیدوار تو یہاں آتے ہیں مگر الیکشن کے بعد آج تک کوئی رکن صوبائی یا قومی اسمبلی یہاں نہیں آیا ہے۔ لوگوں کو یہ بھی شکایت ہے کہ اور تو اور آج تک چترال کے کسی میڈیا والے نےبھی ہماری حال احوال پوچھنے کی زحمت گوارا نہیں کی۔ غیر مقامی صحافی گل حماد فاروقی اور ان کی ٹیم پہلی بار اس وادی میں لوگوں کے مسائل میڈیا میں اجاگر کرنے کیلئے پہنچی۔ بنیادی سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے آج بھی یہاں کے لوگ پتھر کے زمانے کے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ یہاں کے لوگ صوبائی اور وفاقی حکومت کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی اداروں سے بھی بنیادی سہولیات فراہم کرنے کا پرزور مطالبہ کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ہم بھی پاکستانی ہیں اور ہمارا بھی اتناہی حق ہے جتنا کسی بڑے شہر کے دیگر پاکستانیوں کاحق ہے۔۔۔۔۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں