جولائی کا آغاز ایک افسردہ کن خبر سے ہواہے۔ ایک بڑے ادیب کے انتقال کی خبر سے زیادہ افسردہ کردینے والی کوئی چیز نہیں ہوسکتی۔
البانیہ کے اسماعیل کادارے ، بڑے ادیب تھے جو آج اٹھاسی برس کی عمر میں رخصت ہوئے۔ لازمی نہیں کہ بڑے ادیب کو نوبیل انعام بھی ملے۔ کادارے کو بھی نہیں ملا، اگرچہ وہ کئی بار نام زد ہوئے۔بکر پرائز سمیت اور کئی انعام ضرور ملے۔
انھوں نے البانوی زبان میں شاعری ، فکشن اور مضامین لکھے۔تاہم ان کے حقیقی تخلیقی جوہر فکشن میں کھلے۔ البانوی زبان میں ادب کی زبانی روایت جس قدر زرخیز تھی ،اس قدر تحریری روایت نہیں۔ ان سے دی پیر س ریویو کے ملاقات نگار شوشا گپے نے پوچھا کہ کیا اس زبان میں کوئی دانتے، شیکپیئر ،گوئٹے ہے تو اسماعیل کادارے نے چند البانوی ادیبوں کا ذکر ضرور کیا مگر کسی کو عظیم نہیں کہا۔ اس نے البتہ اپنی زبان کو یورپ کی تین بنیادی زبانوں میں فخریہ شمار کیا۔ دوسری دو یونانی اور آرمینی ہیں۔
کادراے ، زبانی روایت کو اہمیت ضرور دیتا ہے مگر وہ تحریری روایت کو انسانی تہذیب کا اہم ترین مرحلہ کہتا ہے۔ تحریر ، متن کو استحکام دیتی ہے۔ کادارے کے تخیل کی تعمیر یورپ کے تحریری ادب کے چند بڑے نمائندوں نے کی۔
اسماعیل کادارے نے اس عام رائے کی نفی کہ اپنی زبان میں بڑے ادب کی روایت کے بغیر بڑا ادب نہیں لکھا جاسکتا۔جو روایت پہلے موجود نہیں، ایک ادیب اس روایت کی بنیاد رکھ سکتا ہے، بشر طیکہ اس کا تخلیقی روح معاصر زندگی کا بوجھ اٹھانے کے قابل ہو اور اس کا ذہن دوسری زبانوں کے ادب کے مطالعے سے استفادے پر آمادہ ہو۔
وہ اپنی زبان کا پہلا بڑا دیب ہے ، جس کے حصے میں عالمی شہرت بھی آئی۔ سب بڑے ادیبوں کے حصے میں یہ شہرت آئے، لازم نہیں۔
اس کا تخیل البانیہ کی اشتراکی حکومت کے جبر سے ایک پل غافل نہیں رہا ۔ اس نے دنیا کے بڑے ادب کا مطالعہ بھی کیا۔ وہ یونانی المیوں ، شیکسپیئر ، آوریل،جوائس اور سب سے بڑھ کر کافکا سے متاثر تھا۔
وہ اپنے وطن ،کمیونسٹ البانیہ اور یونانی المیوں میں گہری مماثلت دیکھتا تھا۔ دونوں میں اقتدار کی مسلسل جنگ اور اس کے نتیجے میں المیوں کی پیدائش مشترک تھی۔ وہ منفی تخلیقیت (negative creation) کا قا ئل تھا،یعنی اس بات کا کہ کیا کیا نہیں لکھنا ہے۔ وہ کہتا تھاکہ مصنف کے شعور میں ’’ نہ لکھنے‘‘ کا حصہ ، ’’ لکھے جانے ‘‘ کے حصے سے زیادہ ہوا کرتا ہے۔ آمریت کی تاریکی اور جہنم ، ا س کے لیے ’’لکھے جانے ‘‘ والے حصے میں شامل رہے۔
کادارے کو بڑا ادیب بنانے میں کچھ واقعات کا اہم کردار تھا۔وہ ایک مسلمان گھرانے میں پیدا ہو۔اس کے لیے یہ محض ایک عام سا اتفا ق تھا، جس کا کوئی گہرا اثر اس پر نہیں پڑا۔اس کے خاندان میں اسلام صرف نام کی حد تک موجود تھا۔ چناں چہ اسے مذہبی تعلیمات و احکام سے زیادہ گھر میں اس بات کا إحساس ہوا کرتا کہ والد قدامت پسند اور متوسط طبقے کے فرد تھے، جب کہ والدہ کمیونسٹ اور امیر کبیر باپ کی بیٹی تھی۔
دونوں میں نظریاتی جنگ تو نہیں ہوتی تھی مگر طنز و تعریض کا ماحول گھر میں رہتا تھا۔گھر میں بحث مذہب پر نہیں ،سیاست پر ہوا کرتی۔ کادارے اس نظریاتی ماحول کاناظر بنا ، حصہ نہیں۔ وہ نہ کمیونسٹ بنا نہ قدامت پسند۔ ان دونوں کو سمجھنے والا ضرور بنا۔
اسے ماسکو کے گورکی انسٹی ٹیوٹ میں ادب کی تعلیم کے لیے بھیجا گیا۔ تعلیم کیا تھی، کمیونسٹ ملک کا سرکاری ادیب بننے کی ترغیب وتربیت تھی۔ کادارے یاد کرتا کہ اسے یہان بھیجنے کا مقصد ،اس کے اندر کی ساری تخلیقیت کا گلا گھونٹنا تھا۔ زندگی ، دنیا ،سیاست،سماج کو صرف اس نظر سے دیکھنا تھا جو کمیونسٹ ملک کے آمر کو پسند تھا۔ آزادانہ پڑھنے، سوچنے اور لکھنے کی آزادی کا تصور بھی نہیں تھا۔
کادارے کو یہاں ایک داخلی جدوجہد اور جستجو سے گزرنا پڑا۔ انسانی ذہن پر اختیار کامل کی آرزومند آمریت کے مقابل کچھ محفوظ راستے تلاش کرنے پڑے۔ یہ راستے اسے تمثیل ، اساطیر اور قدیم تاریخ کے آثار میں ملے۔
تاہم گورکی انسٹی ٹیوٹ کی تعلیم یکسر ضائع نہیں گئی۔ کادارے پر اپنے ملک میں کافی مشکل وقت آیا۔ ا س کی کتابوں پر پابندی لگی۔ اسے خوف کا سامنا رہا۔ چناں چہ ایک وقت آیا جب اسے فیصلہ کرنا پڑا کہ اسے آمر انو ر ہوجا کی مخالفت کرکے موت کو قبول کرنا ہے ،یا خاموش رہ کر ایک اور طرح کی موت کا سامنا کرنا ہے یا پھر ایک آمر کی صاف حمایت کرنا ہے؟ اس نے موت پر حمایت کو ترجیح دی۔’’ طویل سرما ‘‘کے عنوان سے چھ سو صفحات پر مشتمل ناول لکھا۔ لیکن وہ اعتراف کرتا ہے کہ وہ ایک ادب سے ایک آمر کو تبدیل کرنے میں ناکام رہا۔ ۱۹۹۰ میں وہ فرانس منتقل ہوگیا۔ اسے عالمی شہرت دلانے میں بلاشبہ فرانس کا اہم کردار ہے۔
اس نے کئی اہم ناول لکھے۔’’ مردہ فوج کا جرنیل ‘‘ ا س کا پہلا اہم ناول ہے۔ دوسری عالمی جنگ کے کوئی بیس برس بعد ایک اطالوی جرنیل ، ایک پادری کے ہمراہ البانیہ میں اپنے فوجیوں کی باقیات کی تلاش میں آتا ہے۔ جنگ میں مرنے والوں کی قبروں اور ہڈیوں کی تلاش، جنگ پر ہی نہیں، خود آمریت پر بھی ایک گہرا طنز تھا۔
’’خوابوں کا محل ‘‘ ایک اور اہم ناول ہے، جس کا زمانہ عثمانی سلطنت کا ہے۔ البانیہ سلطنت عثمانیہ کے ماتحت رہا تھا۔ یہ ناول بھی ایک تمثیل ہے۔ا س ناول میں کدارے کا تخیل کافکائی ہے۔ وہ کافکا کی مانند ، مطلق العنانیت کے پیدا کردہ جہنم کو پیش کرتا ہے۔ عوام کے خوابوں کو جمع کرکے، ان کی روحوں تک رسائی حاصل کرکے، انھیں جہنم میں بدلنا، اور آمریت کی بقا و تسلسل کو یقینی بنانا۔
’’دونیم اپریل ‘‘ ( جس کا عمدہ اردو ترجمہ سعید نقوی نے کیا ہے) بھی کادارے کا ممتاز ناول ہے۔
۱۹۳۰ ء کے زمانے کے البانیہ کے پہاڑی قصبوں کی کہانی ہے۔قصبے صدیوں پر انی ، اساطیری روایات میں جیتے ہیں۔مہمان نواز ی ،ان کی سب سے بڑی روایت ہے۔ کادارے ،مہمان نوازی کو الوہیت سے جوڑ تاہے۔ جس طرح ہر بڑی روایت یا عظیم خیال کا ایک تاریک ، عامیانہ اور ہیبت ناک پہلو ہوتا ہے، اسی طرح مہمان نوازی کا بھی ہے۔
مہمان اچانک آتا ہے اور آپ کی ذمہ داری بن جاتا ہے۔ اگر اسے کوئی گزند پہنچتا ہے تو اس کا بدلہ میزبان پر فرض ہے ۔ مہمان کا اچانک آنا، الوہی پہلو رکھتا ہے، لیکن جب مہمان کی حفاظت میں طویل جنگیں شروع ہوتی ہیں تو یہ اس کا تاریک ،ہیبت ناک پہلو ہے۔
ناول کا کردار جورگ اپنے بھائی کا بدلہ لینے پر مجبور ہے۔جب وہ بدلہ لے لیتا ہے تو قانون کے مطابق اس کے مارے جانے کی باری ہے۔ 17 اپریل تک اسے جنگ بندی کی مہلت ملتی ہے، اس کے بعد اسے مار دیا جانا ہے اوریہ عین قانون کے مطابق ہے۔
اس کے بعد جورگ کاخاندان بدلہ لے گا۔ یوں خون کا یہ کھیل جاری رہے گا۔خون کا بدلہ خون ہے،جب کہ زخم لگانے کا جرمانہ ہے۔یہیں سے خون کی تجارت شروع ہوتی ہے۔
مارک یوکاسئیر کا کردار بھی یادرہنے والا ہے ۔وہ اس شہزادے کے پا س کام کرتا ہے جو قتل کا مالیہ وصول کرتا ہے۔ یعنی خون کی تجارت کا سب سے بڑا حصہ دار ہے۔ یوکاسئیر کی زبانی قتل کی بنیاد پر استوار معیشت کا نقشہ کھینچا گیا ہے۔ قتل کیسے کسی کی روح میں رنج بوتا ہے، اسے بھی بیان کیا گیا ہے اور کیسے پھر اس رنج کے ساتھ لوگ سفرحیات جاری رکھتے ہیں ،اسے بھی ناول میں بیان کیا گیا ہے۔
اسماعیل کادارے کے ناول تمثیل کے علاوہ المیے اور گروٹیسک کا امتزاج ہیں۔ کچ کی مانند، گروٹیسک کا ترجمہ بھی مشکل ہے۔ یہ لفظ مضحکہ خیزی، لغویت ،کراہت جیسے عناصر کا بہ یک وقت حامل ہے۔ ان عناصر کا المیے سے امتزاج فنی طور پر آسان نہیں ہے۔ یہ آنسو اور ہنسی کا ملاپ نہیں، آنسو اور کراہت ولغویت کا عجب آمیزہ ہے۔ اسے کادداے کے ناولوں میں محسوس کیا جاسکتا ہے۔
اسماعیل کادارے کے ناول صرف البانیہ کو نہیں، ہماری دنیا کی تمثیلی ترجمانی بھی کرتے ہیں ۔
ناصر عباس نیّر
یکم جولائی ۲۰۲۴ء
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں