“دل دل پاکستان” کے خالق نثار ناسک کی یاد میں، تحریر اسلم ملک

’’ دل دل پاکستان ‘‘ کے شاعر نثار ناسک کی آج پانچویں برسی ہے

نثار ناسک 15 فروری 1943 کو پیدا ہوئے اور 3 جولائی 2019 کو راولپنڈی میں وفات پائی. وہ ریڈیو پاکستان سے وابستہ رہے، پاکستان ٹیلی ویژن کے لیے بھی نغمات لکھتے رہے۔
ان کے مجموعے ’’میں چوتھی سمت آنکلا ‘‘ اور ’’دل دل پاکستان‘‘ کے نام سے شائع ہوئے۔

پی ٹی وی نے نثار ناسک کو ان کی خدمات پر لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ سے بھی نوازا ۔ لیکن انہوں نے زندگی کے آخری ایام غربت اور کسمپرسی میں گزارے۔ وہ کافی عرصہ علیل رہے۔اس دوران بینائی بھی متاثر ہوئی .

نثار ناسک  کے کچھ اشعار ۔ ۔ ۔

ماں مجھے بھی صورت موسیٰ بہا دے نہر میں
قتلِ طفلاں کی منادی ہو چکی ہے شہر میں

میں سازشوں میں گھرا اِک یتیم شہزادہ*
یہیں کہیں کوئی خنجر مری تلاش میں ہے

مجھہ کو آزادی ملی بھی تو کچھ ایسے ناسک
جیسے کمرے سےکوئی صحن میں پنجرہ رکھ دے

گروہِ بردہ فروشاں میں قید ہوں ناسک
بہت دنوں سے مرا گھر مری تلاش میں ہے

پرانا دن نئے دن کو جنم دے کر ہی مرتا ہے
نئی سرسوں کا سونا ہے گئے برسوں کی مٹی میں

میں اکیلا حرف تھا کاغذ کی کشتی میں سوار
میری ہی تنہائیوں کا بوجھ لے ڈوبا مجھے

عمر کے سر پر پرائی ساعتوں کو اوڑھ کر
دھوپ سے کب تک بچو گے اپنی چھت کو چھوڑ کر

گلی میں کھیلتے بچے لڑا دیے میں نے
اسی بہانے کوئی جھانک لے کواڑوں سے

اپنی سوچ کی قطع وبرید میں عمر کٹی
پھر بھی یہ تصویر فریم سے بڑی رہی

پسِ اداکاریٔ تفاخر وہ ڈر عجب تھا
شہید بیٹے کی ماں کا دکھ کس قدرعجب تھا

حلقہ حلقہ رشتوں کی زنجیر کھلی
پاسِ وفا کی ایک کڑی تھی اڑی رہی

نثار ناسک کی ایک نظم

عطیہ

میں جب جاؤں گا
اس دنیا میں
اپنی دونوں آنکھیں چھوڑ جاؤں گا

کہ ڈھلتی شام میں
سڑکوں کے دو رویہ
گرے سوکھے ہوئے پتوں پہ
جب جوڑے چلیں
ہاتھوں میں ڈالے ہاتھ
اور سسکاریوں کے درمیاں
ہنستے ہوئے جذبوں کے گھنگرو
بج اٹھیں
تو یہ آنکھیں انہیں دیکھیں
مجھے روئیں
میں جب جاؤں گا
اس دنیا میں
اپنی دونوں آنکھیں چھوڑ جاؤں گا

تلاش رزق میں نکلے پرندے
مہرباں سورج تلے
اڑتے ہوئے تھک ہار کر
جب شام اپنے گھونسلوں
کی سمت لوٹیں
تو انہیں دیکھیں
اسے ڈھونڈیں
میں جب جاؤں گا
اس دنیا میں
اپنی دونوں آنکھیں چھوڑ جاؤں گا

سنہری صندلیں شاموں کو
جب مے کے لئے
ترسے ہوئے شاعر
اداس اجڑے ہوئے
چہرے لئے
سڑکوں پہ آجائیں
تو یہ آنکھیں
انہیں روئیں
مجھے ڈھونڈیں
میں جب جاؤں گا
اس دنیا میں
اپنی دونوں آنکھیں چھوڑ جاؤں گا

مساجد کے مناروں سے بھی
اونچی بلڈنگوں کے درمیاں
بازار میں
روٹی کے اک ٹکڑے کی خاطر
سانولا معصوم سا لڑکا کوئی
روتا ہوا دیکھیں
تو ان آنکھوں میں
دو آنسو امڈ آئیں
جو آنسو دوسروں کے ہوں
کہ وہ محسوس کر پائیں
میں ان کے ملک میں
جتنے برس زندہ رہا
کس کربلا میں تھا
میں جب جاؤں گا
اس دنیا میں
اپنی دونوں آنکھیں چھوڑ جاؤں گا

*پروفیسر فتح محمد ملک بتاتے ہیں یتیم شہزادے والا شعر نثار ناسک نے اس وقت کہا تھا ‏جب ایوب دور میں ذوالفقارعلی بھٹو پر سانگھڑ میں قاتلانہ حملہ ہوا تھا.

close