اردو کے ممتاز نقاد محمد حسن عسکری نے اردو شعراء کی منتخب نظموں کا ایک مجموعہ ’میری بہترین نظم‘ کے عنوان سے شائع کیا تھا ، جس میں اس زمانے میں شاعری کے افق پر چھائے ہوئے تمام ممتاز تخلیق کاروں کی منتخب نظمیں اور ان کے خود تحریر کردہ حالات زندگی شامل تھے۔
فیض احمد فیض نے اس مجموعے کے لیے اپنی جس نظم کا انتخاب کیا وہ وہی نظم تھی جس کا پہلا مصرعہ اس تحریر کا عنوان ہے، ’مجھ سے پہلی سی محبت مری محبوب نہ مانگ‘۔
فیض احمد فیض نے اپنے حالات زندگی میں تحریر کیا کہ ’میری شاعری پر جن حالات اور شخصیات کا اثر پڑا ان میں سرفہرست نام ’م۔پ‘ کا ہے جس سے کالج کے زمانے میں محبت تھی‘۔
ڈاکٹر ایوب مرزا اپنی کتاب ’ہم کہ ٹھہرے اجنبی‘ میں لکھتے ہیں کہ ’پنڈی کلب کے لان میں ایک خاموش شام میں ہم اور فیض بیٹھے تھے۔ میں نے پوچھا فیض صاحب آپ نے کبھی محبت کی ہے؟ بولے ’ہاں کی ہے اور کئی بار کی ہے۔‘
’یہ کہہ کر پھر چپ ہو گئے۔ ’سیرئس لو‘ میں نے پوچھا، بولے ’ہاں ہاں تمہارا مطلب پہلی محبت سے ہے نا، محبت پہلی ہی ہوتی ہے، اس کے بعد سب کچھ ہیرا پھیری ہے۔‘
ایوب مرزا لکھتے ہیں کہ ’پہلی محبت میں دونوں جہان ہارنے کے بعد فیض ایم اے او کالج امرتسر پہنچے۔ ان کی عجب کیفیت تھی۔ محبت کے میدان میں پہلے تجربے کا اہم ترین پہلو تحیر ہوتا ہے۔ اس تحیر کے عالم گومگو میں فیض امرتسر کے شہر میں گواچ گئے۔‘
آغا ناصر نے لکھا ہے کہ ’امرتسر میں ان کی ملاقات ایک دانشور جوڑے سے ہوئی، ان کے نام تھے صاحبزادہ محمودالظفر اور ڈاکٹر رشید جہاں۔ صاحبزادہ صاحب ایم اے او کالج کے وائس پرنسپل تھے اور ان کی بیگم پیشے کے لحاظ سے ڈاکٹر تھیں۔ دونوں میاں بیوی مارکسسٹ تھے۔ ان دنوں یورپ میں ترقی پسند تحریک ابھرنا شروع ہو گئی تھی۔ ادھر فیض صاحب کا یہ عاشقی کا زمانہ تھا، فیض صاحب کا ان دونوں سے رابطہ ہوا، پھر یہ تعلق قرب اور چاہت میں بدل گیا۔‘
ایوب مرزا لکھتے ہیں کہ ’غور فرمائیں فیض صاحب کبھی بیڈمنٹن کھیل رہے ہیں اور تو کبھی کرکٹ ٹیم کی تشکیل کر رہے ہیں۔ ڈاکٹر رشید جہاں کی نگاہ دوررس نے اس تنہا لیکچرار کو بھانپ لیا، پوچھا معاملہ کیا ہے۔ کسی کام کاج میں تیرا جی نہیں لگتا۔‘
’جب فیض نے جواب میں تکلف کیا تو بلاتکلف بولیں: محبت میں ناکامی اور فیض نے اثبات میں سر ہلا دیا۔ ڈاکٹر صاحب نے مشورہ دیا، یہ حادثہ تمہاری ذات واحد کا بہت بڑا حادثہ ہوسکتا ہے مگر یہ اتنا بڑا بھی نہیں کہ زندگی بےمعنی ہو جائے۔‘
’انھوں نے فیض کو ایک کتاب مطالعے کے لیے دی اور پھر ملنے کے لیے کہا۔ بقول فیض انھوں نے اس کتاب کو پڑھا اور ان پر چودہ طبق روشن ہو چکے تھے، یہ کتاب کارل مارکس اور اینگلز کی کمیونسٹ مینیفیسٹو تھی۔‘
آغا ناصر کے بقول ’یہ واقعہ فیض کی زندگی کا ایک اہم موڑ بن گیا اور ان کی شاعری اور ان کا ذہنی رجحان بدل گیا۔ وہ غریبوں، مفلسوں، ضرورت مندوں، مجبور اور مفلوک الحال عوام کے شاعر بن گئے۔ اپنے ان جذبات کے اظہار کے لیے یہ ان کی پہلی نظم تھی جسے ان کی شاعری کا اہم ترین سنگ میل سمجھا جاتا ہے۔‘
’مجھ سے پہلی سی محبت مری محبوب نہ مانگ‘ ایک ابھرتے ہوئے عظیم شاعر کا اعلان تھا کہ اب اس کے شعر اور اس کے خیال عوام کی امانت ہیں۔
مجھ سے پہلی سی محبت مری محبوب نہ مانگ
میں نے سمجھا تھا کہ تو ہے تو درخشاں ہے حیات
تیرا غم ہے تو غم دہر کا جھگڑا کیا ہے
تیری صورت سے ہے عالم میں بہاروں کو ثبات
تیری آنکھوں کے سوا دنیا میں رکھا کیا ہے
تو جو مل جائے تو تقدیر نگوں ہو جائے
یوں نہ تھا میں نے فقط چاہا تھا یوں ہو جائے
اور بھی دکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا
راحتیں اور بھی ہیں وصل کی راحت کے سوا
ان گنت صدیوں کے تاریک بہیمانہ طلسم
ریشم و اطلس و کمخاب میں بنوائے ہوئے
جا بہ جا بکتے ہوئے کوچہ و بازار میں جسم
خاک میں لتھڑے ہوئے خون میں نہلائے ہوئے
جسم نکلے ہوئے امراض کے تنوروں سے
پیپ بہتی ہوئی گلتے ہوئے ناسوروں سے
لوٹ جاتی ہے ادھر کو بھی نظر کیا کیجے
اب بھی دلکش ہے ترا حسن مگر کیا کیجے
اور بھی دکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا
راحتیں اور بھی ہیں وصل کی راحت کے سوا
مجھ سے پہلی سی محبت مری محبوب نہ مانگ
فیض کی یہ پہلی محبت کس شہر میں پروان چڑھی تھی اس بارے میں مختلف لوگوں نے مختلف شہروں کا نام لیا ہے۔
حمید نسیم نے افکار کے فیض نمبر میں شائع ہونے والے اپنے مضمون ’کچھ فیض صاحب کے بارے میں‘ میں لکھا ہے کہ ’فیض صاحب سے میرا تعارف میرے بڑے بھائی رشید بھائی نے کروایا اور ان کے بارے میں بتایا کہ گورنمنٹ کالج لاہور میں ایم اے میں پڑھتے ہیں اور ملتان میں مقیم ایک لڑکی سے عشق کرتے ہیں۔‘
’فیض صاحب کی اس دور کی تمام نظموں کا محرک اور محبوب یہی خاتون تھیں جو اپنے نیم خواب شبستان میں فیض صاحب کا انتظار کرتی تھیں، مخملی بانہوں والی محبوب۔‘
آغا ناصر نے اپنی کتاب ’ہم جیتے جی مصروف رہے‘ میں فیض کی نظم ’رقیب سے‘ کا پس منظر لکھتے ہوئے لکھا کہ ’اس نظم کے شان نزول کے بارے میں مجھے کچھ مدد امرتاپریتم کے ساتھ فیض صاحب کی گفتگو سے ملی، جس کے دوران فیض صاحب نے بڑی بےتکلفی سے امرتا پریتم سے کہا تھا ’لے ہن تینوں دساں میں پہلا عشق اٹھارہ ورہیاں دی عمروچ کیتا سی۔‘
سوال ہوا کہ ’اسے زندگی میں حاصل کیوں نہ کیا‘ تو جواب تھا کہ ’ہمت کب ہوتی تھی اس وقت زبان کھولنے کی، پھر اس کا بیاہ کسی ڈوگرے جاگیردار کے ساتھ ہو گیا۔‘
پھر پوچھا گیا کہ ’ایک تمہاری نظم ہے جس میں تم رقیب سے مخاطب ہو، تم نے دیکھی ہے وہ پیشانی، وہ رخسار، وہ ہونٹ۔ زندگی جن کے تصور میں لٹا دی ہم نے۔‘ یہ نظم کس کے بارے میں تھی تو فیض صاحب نے جواب دیا کہ ’یہ بھی اسی کے بارے میں ہے جس کی خاطر نقش فریادی کی نظمیں لکھیں۔‘
آغا ناصر لکھتے ہیں کہ ’یہ فیض صاحب کا پہلا عشق تھا۔ ان کی محبوبہ کا تعلق ایک افغان گھرانے سے تھا۔ یہ نوعمر لڑکی سیالکوٹ میں ان کے ہمسائے میں رہتی تھی اور فیض صاحب کمرے کی کھڑکی سے اس کو آتے جاتے دیکھا کرتے تھے۔ چونکہ طبعاً بہت شرمیلے تھے اس لیے بات کرنے کی ہمت نہ پڑتی تھی۔‘
’یہ باتیں خود فیض صاحب نے زہرہ نگاہ کو بتائیں جن سے ان کے بڑے قریبی روابط تھے۔ زہرہ آپا نے مجھ سے کہا ‘فیض صاحب اس لڑکی سے بے پناہ محبت کرتے تھے۔ انھوں نے اپنی اس دیوانگی میں اس کے لیے خوبصورت شعروں کے ڈھیر لگا دیے۔ ان کا عشق اپنے شباب پر تھا جب تعلیم کے لیے انھیں سیالکوٹ سے لاہور جانا پڑا۔‘
فیض صاحب نے بتایا کہ ’پھر ہوا یوں کہ ہم ایک بار چھٹیوں میں لاہور سے واپس آئے تو کھلی کھڑکی کی دوسری جانب وہ چہرہ نظر نہ آیا۔ ہم نے کسی سے دریافت کیا تو پتا چلا کہ اس کی شادی ہو گئی۔‘
فیض صاحب کے لیے یہ خبر بڑی اندوہناک تھی۔ وہ ٹوٹے دل سے واپس لاہور چلے گئے اور مدتوں اس غم کو بھلانے کی کوشش کرتے رہے۔ پھر خاصا عرصہ گزر جانے کے بعد وہ ایک بار پھر سیالکوٹ آئے تو ان کی محبوبہ بھی آئی ہوئی تھیں۔
وہ فیض صاحب سے اپنے شوہر کو ملانے کے لیے لائی۔ اس کا شوہر بہت حسین و جمیل انسان تھا۔ دراز قد، شہابی رنگت، تیکھے خدوخال، مردانہ وجاہت کا نمونہ۔
فیض صاحب سے مل کر وہ دونوں رخصت ہو گئے مگر تھوڑی دیر کے بعد وہ پھر واپس آئی۔ اس بار اکیلی تھی صرف یہ کہنے کے لیے ’تم نے دیکھا میرا شوہر کس قدر خوبصورت ہے۔‘
فیض صاحب کہتے ہیں کہ ’بس اس کا یہی فقرہ نظم ’رقیب سے‘ کی تخلیق کا سبب بنا۔‘
فیض صاحب کی صاحبزادی سلیمہ ہاشمی نے اپنے مضمون ’فیض اینڈ پرفارمنگ آرٹس‘ میں فیض صاحب کے حوالے سے بتایا ہے کہ ’میں رفتہ رفتہ شاعر بنتا گیا۔ دو تین عناصر نے یہ راہ طے کی۔ پہلا جذبہ جس نے یہ اضطرار پیدا کیا کہ ہم اپنی اذیتوں کا اظہار شاعری میں کریں یہ تھا کہ ہمیں عشق ہو گیا جیسا کہ اس عمر میں سب کو ہوتا ہے۔‘
’17، 18 سال کی عمر میں ہمیں ایک افغان لڑکی سے عشق ہوا جو بچپن میں ہمارے ساتھ کھیلا کرتی تھی۔ اس کے گھر والے افغانستان سے اسی وقت آئے تھے جب والد صاحب آئے۔‘
’وہ فیصل آباد (لائل پور) کے ایک گاؤں میں آباد ہوئے تھے۔ میری بہن کی شادی بھی اسی گاؤں میں ہوئی چنانچہ ہم بہن سے ملنے کے لیے وہاں جاتے تھے۔ ایک صبح ہم جاگے تو ایک حسین لڑکی اپنے طوطے کو دانہ کھلا رہی تھی، اس نے ہمیں دیکھا، ہم نے اسے دیکھا اور دونوں میں محبت ہو گئی بلکہ ہمیں ہو گئی۔‘
’روایت کے مطابق ہم رازداری سے ایک دوسرے کا ہاتھ تھام لیتے تھے لیکن ہم اس سے آگے نہ جا سکے۔ اس کی شادی کسی امیر زمیندار سے ہو گئی اور ہم ہمیشہ کے لیے دکھی دکھی رہنے لگے۔۔۔ آٹھ سال تک۔‘
اب آئیے اشفاق بخاری کی تحقیق کی طرف۔ وہ اپنی کتاب ’فیض احمد فیض، چند نئی دریافتیں‘ میں اسی روایت کی تصدیق کرتے ہیں۔
انھوں نے لکھا کہ ’فیض احمد فیض کی ہمشیرہ بلقیس بانو سنہ 1922 میں شادی کے بعد لائل پور میں آباد ہوئیں، ان کے شوہر چوہدری نجیب اللہ پیشے کے اعتبار سے وکیل تھے۔ سنہ 1923 میں جب ان کے ہاں پہلی ولادت ہوئی تو بلقیس بانو کی والدہ سلطان فاطمہ اپنے تینوں بیٹوں طفیل احمد، فیض احمد اور عنایت احمد کے ساتھ سیالکوٹ سے لائل پور آئی تھیں۔‘
1929 میں فیض صاحب دوسری مرتبہ لائل پور آئے۔ اس وقت ان کی عمر 18 برس تھی۔ فیض صاحب نے امرتا پریتم کو دیے گئے اپنے انٹرویو میں بھی یہی بتایا تھا کہ جب وہ پہلی مرتبہ عشق میں مبتلا ہوئے تو اس وقت ان کی عمر 18 سال تھی۔ یہی بات سلیمہ ہاشمی نے بھی لکھی۔ فیض احمد فیض اس وقت گورنمنٹ کالج لاہور میں تھرڈ ایئر کے طالب علم تھے۔
فیض کی ایک عزیزہ شفقت سلطان نے اشفاق بخاری کو بتایا کہ ’(چنیوٹ بازار میں واقع) ہماری حویلی کے دروازے اور کھڑکیاں بازار اور گلی دونوں جانب کھلتے تھے، نیچے بہت بڑے بڑے کمرے تھے۔ ان کے آگے بہت وسیع صحن تھا۔ ان کمروں میں کابل سے آتے جاتے مہمان ٹھہرا کرتے۔‘
’ان کمروں کے اوپر کی چھت انھی مہمانوں کے لیے مخصوص تھی کیونکہ حویلی تین منزلہ تھی ہمارے اپنے خاندان کے لوگ تیسری منزل پر سویا کرتے تھے۔ ہمارے ساتھ کی حویلی کی بناوٹ بھی ایسے ہی تھی۔ دونوں کے درمیان دیوار تو تھی مگر ایک چھت پر کھڑے ہوں تو دوسری جانب کے لوگ صاف دکھائی دیتے تھے۔‘
’میں عموماً دیوار پھلانگ کر ان کی چھت پر دھرے کابکوں میں بند کبوتر اور دوسرے کئی پالتو پرندے دیکھنے چلی جایا کرتی تھی، اس حویلی میں کئی سید خاندان آباد تھے، حسن و دلکشی میں ان کا جواب نہ تھا۔ مجھے خاندان میں ہونے والی سرگوشیوں کی بعد میں سمجھ آنے لگی کہ ماموں فیض کو ان میں سے کسی سے محبت ہو گئی ہے۔‘
سلیمہ ہاشمی نے ’مجھ سے پہلی سی محبت مری محبوب نہ مانگ‘ کے بارے میں لکھا ہے کہ ’شاید یہ فیض کی بہترین نظم نہ ہو لیکن یہ سب سے زیادہ مقبول اور بلاشبہ ان کی پہچان مانی جاتی ہے۔‘
فیض صاحب کی یہ نظم اس وقت مقبول ہوئی جب ملکہ ترنم نور جہاں نے اسے اپنی آواز دی۔ پھر سنہ 1962 میں فلمساز آغا جی اے گل نے اسے اپنی فلم قیدی میں شامل کیا۔ قیدی کے موسیقار رشید عطرے تھے۔
نور جہاں کی آواز میں یہ نظم اتنی مقبول ہوئی کہ فیض صاحب کہا کرتے تھے کہ ’بھئی اب یہ نظم ہماری نہیں، ہم نے تو یہ مادام نور جہاں کو دے دی۔‘
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں