کیفی اعظمی کو خراج عقیدت، سینئر صحافی، دانشور، ناصر بیگ چغتائی کی خصوصی تحریر

بہت سی اور رومانٹک نظمیں بھی ہیں لب و رخسار کی تعریف میں حیرت انگیز اصطلاحات ملتی ہیں لیکن جگجیت نے یہ گا کر ان سوالوں کو اور سنگین کردیا جو کیفی صاحب نے اٹھائے تھے ۔۔ شبانہ اعظمی اسی بڑے شاعر کی بیٹی ہیں۔۔۔ لیکن کیفی صاحب ان سے کتنے خوش گئے اس کا علم نہیں۔

کیفی رومان سے انقلاب تک گئے لیکن شبانہ اور جاوید اختر رومان کے بعد خود کو دہریہ کہتے ہوئے رد انقلاب کی طرف گئے۔۔۔انسانی حقوق کے لیے آواز بلند کرنے سے پہلے وہ یہ ضرور دیکھتے ہیں کہ ان پر مسلم دوستی کا الزام تو نہیں آجائے گا ۔۔وہ کمیونسٹ پارٹی کے بھی خلاف ہوچکے ہیں۔کیوں؟

بس یہ سوال بھی کچھ ایسے ہی ہیں

کوئی یہ کیسے بتائے کہ وہ تنہا کیوں ہے

وہ جو اپنا تھا وہی اور کسی کا کیوں ہے

یہی دنیا ہے تو پھر ایسی یہ دنیا کیوں ہے

یہی ہوتا ہے تو آخر یہی ہوتا کیوں ہے

اک ذرا ہاتھ بڑھا دیں تو پکڑ لیں دامن

ان کے سینے میں سما جائے ہماری دھڑکن

اتنی قربت ہے تو پھر فاصلہ اتنا کیوں ہے

دل برباد سے نکلا نہیں اب تک کوئی

اس لٹے گھر پہ دیا کرتا ہے دستک کوئی

آس جو ٹوٹ گئی پھر سے بندھاتا کیوں ہے

تم مسرت کا کہو یا اسے غم کا رشتہ

کہتے ہیں پیار کا رشتہ ہے جنم کا رشتہ

ہے جنم کا جو یہ رشتہ تو بدلتا کیوں ہے

اور یہ دیکھیں دوسرا رخ
۔۔۔۔غضب کا رومانس احساس لطافت اردو

ایک تو اِتنی حَسیں٫ دُوسرے یہ آرائش
جو نظر پڑتی ھے چہرے پہ ٫ ٹھہر جاتی ھے
مُسکرا دیتی ھو رسماً بھی ٫ اگر محفل میں
ایک دھنک ٹوٹ کے ٫ سینوں میں بکھر جاتی ھے

گرم بوسوں سے تراشا ھُوا نازک پیکر
جس کی ایک آنچ سے ٫ ھر رُوح پگھل جاتی ھے
میں نے سوچا ھے ٫ کہ سب سوچتے ھوں گے شاید
پیاس اِس طرح بھی ٫ کیا سانچے میں ڈھل جاتی ھے؟

طویل نظم “نذرانہ” سے انتخاب

تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں