اداکارہ نادیہ جمیل کا کینسر کو شکست دینا شاید ان کی نیکیوں کا پھل نادیہ جمیل نے زمانے کے ستائے ہوئے چھ بچوں کو گود لے رکھا ہے، جن کی وہ بہت اچھی طرح سے پرورش کررہی ہیں، عمدہ تعلیم دلارہی ہیں۔
پچھلے دنوں انہوں نے کیمبرج (برطانیہ) میں ان کے ساتھ بنوائی ہوئی تصویر شئیر کرکے اپنے ان بچوں کا یوں تعارف کرایا۔۔۔
صابر جو بائیں طرف کھڑا ہے وہ سب سے بڑا ہے ۔ اس نے میٹرک کرلیا ہے اور GET شروع کر رہا ہے۔ وہ فوج میں جانا چاہتا ہے۔ وہ 4 سال کا تھا جب میں نے اسے اینٹوں کے بھٹے پر مزدوری کرتے دیکھا تھا۔ یہ اب 17 سال کا ہے۔ آج یہ اپنی کہانی سے دوسروں کو حوصلہ دیتا ہے۔ یہ میرا صبر والا بچہ ہے۔ اس کے ساتھ میرا ہیرو ارشد ہے جو چائے کے سٹال پر کام کرتا تھا اور اب وہ ایک انجنیئر بننا چاہتا ہے۔ساتھ میں میرا آزاد ہے۔ وہ 7 سال کا تھا جب میں اس سے پہلی مرتبہ ملی۔ اس نے بہت جدوجہد کی ہے۔ ہمارے ساتھ اٹھنا بیٹھنا سیکھا، ہمیں قبول کیا۔ اس کی حقیقی ماں اپنے بچے کو بھکاری بنانا چاہتی تھی اور اسے سڑکوں پر سونے کے لئے مجبور کرتی تھی۔ اس کو اس ماحول سے نکل کر اپنے آپ کو ہمارے لئے ڈھالنا ایک مشکل کام تھا جس کو آزاد نے بہت محنت سے کیا۔پھر میرا فرشتہ محمد طلحہ انعام ہے۔ اس کی پیدائش کے چند گھنٹے بعد اس کی ماں کا انتقال ہو گیا۔ ان کے والد نیٹو کے ڈرون حملے میں مارے گئے۔ جب وہ پہلی بار میرے پاس آیا تو وہ رو رہا تھا لیکن آج یہ سب مسکرا رہے ہیں۔ اس کے بعد علی شاکر ہے۔ علی ایک محنتی، مطالعہ کرنے والا نوجوان ہے۔ اس نے اپنے ماں باپ اور بہن بھائیوں کو اپنے چچا کے ہاتھوں قتل ہوتے ہوئے دیکھا، وہ خود چھپ گیا تھا۔ لیکن شکر ہے کہ وہ اب ہمارے ساتھ یہاں آزادی کی زندگی گزار رہا ہے۔میرے بیٹے میرا فخر اور دل کی خوشی ہیں۔ میں ان کے ساتھ بہت خوش ہوں یہ مجھے زندگی جینے اور مثبت سوچ کے ساتھ آگے بڑھنے کا حوصلہ دیتے ہیں۔
نادیہ جمیل نادرا سے بہت ناراض ہیں کہ ان کی سب سے چھوٹی بیٹی نوری کے قانونی کاغذات تیار کرنے میں تاخیر کی جارہی ہے. جس کی وجہ سے وہ اسے اپنے پاس لندن نہیں بلوا پارہیں. اسے ایک سال سے نہیں دیکھا، وہ نہ صرف اس کیلئے بہت اداس ہیں بلکہ بچی کے آنکھوں کے ضروری معائنے میں بھی دیر ہو رہی ہے. بچی پاکستان میں ان کی والدہ کے پاس ہے.
نادیہ بہت صاف گو ہیں. انہوں نے ایک ٹوئٹ میں انکشاف کیا کہ وہ بچپن سے لے کر جوانی تک چار بار جنسی ہراسانی کا نشانہ بن چکی ہیں۔ پہلی بار محض 4 برس کی عمر میں نشانہ بنی تھیں۔ دوسری بار 9 برس، تیسری بار 17 اور چوتھی بار 18 برس کی عمر میں۔
نادیہ جمیل نے لکھا کہ انہیں کم عمری میں جنسی ہراسانی کے غم سے نکلنے میں کئی سال لگے، وہ کافی وقت تک ڈپریشن، خوف، صدمے اور شدید عذاب میں مبتلا رہیں۔ جنسی ہراسانی کا نشانہ بننے کی وجہ سے وہ شرمندگی میں رہتی تھیں، انہیں کسی طرح کی خوشی سے کوئی سروکار نہیں تھا، وہ ایک درد کی کیفیت میں رہتی تھیں۔
مشکل حالات اور زندگی کا مقابلہ کیا اور شفا و راحت کی جانب آئیں، اب وہ آگے بڑھ رہی ہیں اور انہیں بڑھتے ہی رہنا ہے۔
نادیہ بچوں کے تحفظ اور لاوارث اور بے سہارا بچوں کی بحالی کی ہر کوشش میں پیش پیش رہتی ہیں. انہوں نے پنجاب چائلڈ پروٹیکشن بیورو میں این ایل پی ماسٹر ٹرینر کے طور پر کام کیا، بچوں کے خلاف بہت سے جرائم میں مجرموں کو سزا دلانے کیلئے سرگرم کردار ادا کیا. سنجن نگر سکول کی ٹرسٹی بھی ہیں، جو رضا کاظم نے غریب لڑکیوں کو ایلیٹ سکولوں جیسی تعلیم اور دوسری سہولیات دینے کیلئے قائم کیا ہے۔
کینسر کو شکست دینے والی نادیہ جمیل کہتی ہیں، بیماری سے بڑا کوئی استاد نہیں، جب میری کیمو ہوئی تو میرے سر کے بال، بھنویں، ناخن سب ختم ہو گئے تو تب میرا تکبر ٹوٹا کہ یہ ہے اصل نادیہ جمیل. تب مجھے احساس ہوا کہ انسان تو کچھ بھی نہیں ہے. اس بیماری کے دوران میں نے بہت کچھ سیکھا، اللہ کے قریب ہوئی اس کے کرشموں کو پہچانا. مجھے صحیح معنوں میں سمجھ آئی کہ ہر انسان جو دنیا میں آیا ہے اسکو اپنی زندگی خود لیکر چلنا ہے اپنی زندگی کی گاڑی کو خود کھینچنا ہے.اس بیماری نے ہی مجھے یہ احساس دلایا کہ کسی نے تمہارا ٹھیکہ نہیں لے رکھا سوائے اللہ کی ذات کے کوئی نہیں۔ ہر ایک نے اپنی زندگی کی گاڑی خود ہی چلانی ہے۔ مجھے یہ بیماری نہ ہوتی تو شاید میں اتنا کچھ نہ سیکھ پاتی. نادیہ نے کہا کہ جب مجھے کینسر ہوا تب کورونا کے دن تھے کوئی میرے پاس آجا نہ سکتا تھا. سوچیں تنہائی اور بیماری ہو تو انسان کی ذہنی حالت کیسی ہو سکتی ہے. جیسے وقت سے بڑا استاد کوئی نہیں اسی طرح سے بیماری سے بڑا کوئی استاد نہیں. یہ وہ وقت ہوتا ہے جب آپ کو سمجھ میں آتی ہے کہ کون آپ کا اپنا ہے اور کون نہیں. میں نے حوصلے اورہمت سے وقت گزارا، اللہ نے اس سخت بیماری سے میری جان چھڑوا دی جس کے لئے میں اس کی شکر گزار ہوں.
نادیہ کہتی ہیں، میں نے زندہ رہنے کے لیے 2 باتوں کا انتخاب کیا، پہلی مثبت ارادے اور دوسری شکرگزاری۔
نادیہ جمیل 19 اکتوبر 1975 کو لندن میں پیدا ہوئی تھیں۔ 9 سال کی عمر میں لاہور آ گئیں۔ انگریزی ادب میں ماسٹر کی ڈگری حاصل کی۔ امریکہ کے ہیمپشائر کالج سے ڈرامہ اور تخلیقی تحریر میں بیچلر کیا۔ “بالو ماہی”، “بے حد” اور “دمسا” ڈراموں میں اداکاری کی وجہ سے مشہور ہیں ، دمسا بچوں کی اسمگلنگ سے متعلق ایک کہانی ہے۔نادیہ نے ایک ویڈیو “الوداع” میں بھی کام کیا ہے جو کینسر سے متعلق آگاہی مہم کے بارے میں ہے. دوسرے اہم کام مجھے جینے دو، پتلی گھر، رات چلی ہے جھوم کے، دمسا، میری جان، در شہوار ، بے حد، میرے پاس پاس، بیوٹی پارلر اور زندگی بدلتی ہے، لوریلی، دھوپ چھاؤں، کالی شلوار ، دا گھوسٹ، کہانیاں، جانے انجانے، لو ماہی اور جاگو دنیا ہیں۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں