استاد مہدی حسن خاں صاحب کے یوم وفات پر خصوصی تحریر
یہ جولاٸی 1965 کا ذکر ہے ریڈیو پاکستان کراچی ٹرانسکرپشن سروس میں ماہِ اگست کی مناسبت سے قومی نغمات تیار ہو رہے تھے ۔ تمام فنکار ریہرسل کرنے کے بعد ریکارڈنگ کے منتظر تھے ، ٹرانسکرپشن سروس کے نگراں سید سلیم گیلانی تمام نغمات کی نگرانی خود کررہے تھے کیونکہ موقع ایسا تھا کہ پاکستان اور پڑوسی و غنیمِ جاں بھارت کے مابین شدید سرحدی دباٶ تھا اور کشمیر میں آپریشن جبرالٹر بھی جاری تھا اسی لیے اب قومی نغمات کے ضمن میں کشمیر کی تحریکِ آزادی کے حوالے سے بھی نغمات تیار ہو رہے تھے ۔۔۔۔
اسٹوڈیو میں سناٹا چھا جاتا ہے اور ریکارڈنگ اسٹوڈیو کے باہر سرخ بتّی جلتے ہی کورس میں فنکار نغمہ سرا ہوتے ہیں جس میں شہنشاہِ غزل پیش پیش تھے ۔ سلیم گیلانی کا تحریر و مرتب کردہ نغمہ اسپول ٹیپ پر محفوظ ہونا شروع ہوجاتا ہے اور مہدی حسن کے ساتھ تمام آوازیں یکجا ہو کر کہتی ہیں : ” آزادی کے آٸے پیمبر ۔۔ اللّہ اکبر اللہ اکبر ” نغمہ ختم ہوتے ہی گیلانی صاحب سب کو شاباشی دیتے ہوٸے مہدی صاحب کو روک لیتے ہیں اور انھیں ایک اور نغمہ سپرد کرتے ہیں جو انھوں نے ” ماہِ نو ” سے منتخب کیا تھا ۔۔۔ صوفی غلام مصطفیٰ تبسم صاحب کا تحریر کردہ نغمہ جس کے بول بھی خوب تھے کہ ” ہمت کے شناور کو بھنور بھی ہے کنارہ کشتی کا بھروسا نہ کھویے کا سہارا ” یہ نغمہ دراصل ایک موٹیویشنل قومی نغمہ تھا جس کی طرز بنانے کے لیے مہدی صاحب کے بڑے بھاٸی پنڈت غلام قادر کا انتخاب کیا گیا ۔۔ انھوں نے اس کی طرز بنالی تو اگلے ہی دن خاں صاحب نے خورشید بیگم اور ساتھیوں کے ہمراہ اسے ریکارڈ کروادیا جو یکم اگست کو نشر ہوتے ہی مقبول ہوگیا تاہم اس کی مقبولیت میں اس وقت اضافہ ہوا جب 6 ستمبر کو بھارت نے پاکستان کی بین الاقوامی سرحد عبور کی ۔۔۔۔
جنگِ ستمبر کا آغاز ہوا تو کٸی فنکاروں کے ساتھ ساتھ ریڈیو پاکستان کے اسٹاف آرٹسٹ مہدی حسن خان بھی نغماتِ وطن گانے میں پیش پیش تھے ۔ وہ آواز جو اب تک رومانوی گیتوں کے باعث مقبول تھی اب اس میں دیپک راگ جل اٹھے اور دیکھتے ہی دیکھتے انھوں نے دورانِ جنگ شاندار اور لازوال قومی نغمات ریکارڈ کروادیے بلکہ وہ قتیل شفاٸی صاحب کے تحریر کردہ نغمے میں اپنی کیفیت خود بتاتے ہیں کہ ” میری ہے بس ایک تمنا گیت وطن کے گاتا جاٶں جو اس دیس کے رکھوالے ہیں ان کا لہو گرماتا جاٶں گونجیں میرے سات سُروں سے تیغوں کی جھنکار میں موسیقار وطن کا میں ہوں موسیقار ” یہ نغمہ بھی نہ صرف مقبول ہوا بلکہ مہدی صاحب کی آواز اور قتیل شفاٸی کے الفاظ میں یہ ہر موسیقارِ وطن کا دلی ترجمان بھی ثابت ہوا ۔
8 ستمبر کو مہدی حسن صاحب اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ ہاکس بے پر پکنک منا رہے تھے وہ واپسی پر ریڈیو پاکستان گئے تو ٹرانسکرپشن سروس کے نگراں سید سلیم گیلانی ان پر تھوڑے سے برہم ہوئے کہ یہاں جنگ ہو رہی ہے اور آپ پکنک منا رہے ہیں ۔ اس پر مہدی صاحب نے معصومیت سے کہا “لائیے ہمیں بھی بندوق رائفل دیں تو ہم جنگ پہ جائیں” گیلانی صاحب نے مہدی حسن کو آواز کا مورچہ سنبھالنے کو کہا۔ اس وقت انھوں نے ایک نغمے کا مکھڑا خود لکھ لیا تھا اور بقیہ تمام شاعری کے لیے رئیس امروہوی سے رابطہ جاری تھا جس کے لیے پروڈیوسر عظیم سرور تفویض تھے ۔ گیلانی صاحب نے مکھڑا دے کر استاد نتھو خاں کو مہدی صاحب کے ساتھ کردیا ۔ تھوڑی دیر میں عظیم سرور مرحوم بھی پورا نغمہ لیے حاضر ہوگئے جو رئیس امروہوی نے مکھڑا سننے کے بعد ٹیلی فون پر پورا فی البدیہہ ہی لکھوادیا تھا۔جس وقت نغمہ موصول ہوا اس وقت اسٹوڈیو کی گھڑیوں میں سوا چار بج چکے تھے ۔ ادھر نتھو خاں نے مہدی صاحب کے ساتھ مل کر اس کی شاندار طرز بنالی جس میں صرف 15 منٹ لگے اور پھر مہدی حسن خاں نے صرف ایک ٹیک میں ہی نسیمہ شاہین، شمیم بانو ، نگہت سیما اور زوار حسین وغیرہ کے ساتھ نغمہ ریکارڈ کروالیا جو شام ساڑھے پانچ بجے فوجی بھاٸیوں کے پروگرام میں نشر ہونے کے لیے تیار تھا ۔۔۔ !!
اتنے کم عرصے میں بننے والا یہ تاریخ ساز نغمہ ہے جس پر میوزک انڈسٹری آج بھی ششدر ہے ۔۔ فوجی بھاٸیوں کے پرگرام میں یہ نغمہ نشر ہوا تو اسے پھر قومی نشریاتی رابطے پر بھی آن ایٸر کردیا گیا جو کراچی تا ڈھاکہ ارضِ لاہور کو خراجِ تحسین پیش کررہا تھا کہ ” خطہ ٕ لاہور تیرے جانثاروں کو سلام شہریوں کو غازیوں کوشہسواروں کو سلام “
اسی دن کمرشل سروس سے تعلق رکھنے والے نوجوان نغمہ نگار مسرور انور کا نغمہ بھی موصول ہوا جو انھوں نے گزشتہ رات بلیک آٶٹ کے دوران اپنے گھر میں بیٹھ کر رات کے آخری پہر تحریر کیا تھا ۔۔ اور صبح وہ مختلف اخبارات کے ساتھ ساتھ ریڈیو پاکستان میں بھی دے آٸے ۔ گیلانی صاحب نے شاعری دیکھتے ہوٸے اسے فوراً منظور کیا اور نغمہ سہیل رعنا کے حوالے کردیا جنھوں نے اس کی راگ بھیرویں میں شاندار طرز بناٸی اور شہنشاہِ غزل کی آواز میں جب یہ نشر ہوا تو اس کا آغاز ہی سرمنڈل کے تاروں کی آواز کے ساتھ ایسا ہوا کہ جیسے سُر طلوع ہو رہے ہوں اور جب مہدی صاحب نغمہ سرا ہوٸے تو قوم کےہر فرد کی جانب سے اپنے محافظوں کے لیے نذرانہ بکھیرتے ہوٸے کہنے لگے : ” اپنی جاں نذر کروں اپنی وفا پیش کروں قوم کے مردِ مجاہد تجھے کیا پیش کروں ” پھر نغمہ آگے بڑھا تو مسرور انور کے جذبات خاں صاحب کی آواز میں ڈھل کر اپنے غازیوں کے کارنامے بتاتے ہوٸے کہنے لگے : ” تو نے دشمن کو جلا ڈالا ہے شعلہ بن کے ابھرا ہر گام پہ تو فتح کا نعرہ بن کے اس شجاعت کا تجھے کیا میں صلہ پیش کروں “
جنگ زوروں پر آئی تو رٸیس امروہوی صاحب کا تحریر کردہ ایک اور ترانہ محاذِ جنگ کا منظر پیش کرتے ہوٸے ہر اہلِ وطن کو یقینی اور کھلی فتح کا مژدہ سنانے لگا ۔ پنڈت غلام قادر کی مرتب کردہ دھن میں اس نغمے کے بول بھی کیا خوب تھے جو قرآنی آیت سے مستعار لیے گٸے کہ : ” اللّہ کے وعدے پہ مجاہد کو یقیں ہے اب فتحِ مبیں فتحِ مبیں، فتحِ مبیں ہے اسلام سرفرازی ٕ مسلم کا ہے پیغام صد شکر سرافراز ہوا پرچمِ اسلام اللّہ کی تاٸید ہے غازی کا ہر اقدام اور فتح مبیں مومنِ جانباز کا انعام ” یہ نغمہ بھی اتنا مقبول ہوا کہ آج اس کا شمار جنگِ ستمبر کے لازوال نغمات میں ہوتا ہے ۔
اس کے بعد مہدی صاحب رٸیس امروہوی کا تحریر کردہ ایک اور نغمہ جو ارضِ سیالکوٹ کے نام تھا ساتھی فنکاروں کے ساتھ گایا جس کے بول یوں تھے : ” ہماری قوم کے مردانِ جانثار کو دیکھ سیالکوٹ کےمیدانِ کارزار کو دیکھ ” اس نغمے کا یہ شعر جو بھی سنتا اس کےدل سے خود لا الہ اللہ کی صداٸیں نکلتیں کہ ” وہ بڑھ رہی ہے جوانانِ صف شکن کی سپاہ فرار جنگ سے دشمن ہوا بحالِ تباہ چلے چلو کہ ہے تاٸیدِ ایزدی ہمراہ کہ لب پہ اشھد اللّہ الہ الا اللّہ شانِ فتح مبیں شانِ کردگار کو دیکھ سیالکوٹ کے میدانِ کارزار کو دیکھ ” دورانِ جنگ مہدی حسن صاحب نے پاک فضاٸیہ کے لیے میجر ضمیر جعفری مرحوم کا تحریر کردہ نغمہ ” پاک شاہینوں فضاء کے شہریاروں کو سلام آسمانوں پر زمیں کے چاند تاروں کو سلام ” بھی ریکارڈ کروایا ۔
جنگ کے بعد مہدی حسن خاں صاحب کا شمار پاکستان کے نامور قومی فنکاروں میں ہونے لگا جنھوں نے ملٌی نغموں کے ضمن میں کٸی یادگار نغمات اپنے نام کیے ۔ 1971 کی جنگ سے پہلے پاٸلٹ آفیسر راشد منہاس شہیدؒ کے حضور شہنشاہِ غزل نے ملکہ ترنم نورجہاں کے ساتھ قتیل شفاٸی کے الفاظ میں ایک شاندار نغماتی نذرانہ پیش کیا جس کے بول یہ تھے : “جان دے کر تو نے جینے کا دیا سب کو پیام اے میرے کم سِن شہید تجھ پہ ملت کا سلام ” اور پھر 1971 کی جنگ میں بھی مہدی صاحب نہ صرف شاندار ملٌی نغمات گاٸے بلکہ دیگر فنکاروں کے لیے نغمات بھی کمپوز کیے ۔۔
جنگ کے بعد انھوں نے شہناز بیگم کے ساتھ میجر ضمیر جعفری کا تحریر کردہ نغمہ ” میری پاک زمیں ، میری پاک زمیں ۔۔۔ سدا سکھ جیوے سدا سکھ تھیوے ” بھی ریکارڈ کروایا جسے ریڈیو پاکستان نے اپنی سیریز ” روشنی کے گیت ” میں شامل کرکے اس کا لانگ پلے بھی جاری کیا ۔ اسی زمانے میں مہدی صاحب کی آواز میں میجر ضمیر جعفری ہی کا تحریر کردہ نغمہ : جھلمل جھلمل ہر چہرے پر ہمت کا لشکارا افق افق پر چاندی سونا روشن چاند ستارہ پاکستان ہمارا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پاکستان ہمارا ” بھی گایا جو آج بھی کراچی ریڈیو کا ایک مقبول ملّی نغمہ کہلاتا ہے ۔ 1973 میں اس وقت کے وزیرِ اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی فرماٸش پر ان کا پسندیدہ قومی نغمہ ” سوہنی دھرتی اللّہ رکھے ” بھی مہدی صاحب نے پاکستان ٹیلی ویژن کراچی مرکز پر ریکارڈ کروایا جسے مسرور انور نے تحریر کیا تھا ۔
بھٹو صاحب ہی کے عہد میں مہدی حسن اور ساتھیوں نے سینٹرل پروڈکشن یونٹ کراچی پر سلیم گیلانی صاحب کا تحریر کردہ وہ نغمہ بھی ریکارڈ کروایا جو اس دور میں نہ صرف مقبولِ عام ہوا بلکہ روزانہ ریڈیو سے بھٹو صاحب کی تقریر کے حصّے کے ساتھ نشر ہوتا اور اسے عوامی دور کا نماٸندہ نغمہ کہا جاتا ہے جس میں تعمیرِ وطن کی لگن میں نٸے عزم کا عہد اس طرح کیا گیا ہے کہ ” یہ فیصلہ ہے وطن کو سجا کے دم لیں گے نٸے دیے نٸی شمعیں جلا کے دم لیں گے جہانِ تازہ کا سورج چڑھا تو راہ ملی ملی ہے راہ تو منزل پہ جا کے دم لیں گے ” اس نغمے کی وجہ سے وزیرِ اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے سلیم گیلانی مرحوم کی خوب ستاٸش کی اور یہ ملّی نغمہ روزانہ ہی قومی نشریاتی رابطے سے نشر ہوتا تھا تاہم ملّی نغمات کے ضمن میں مہدی حسن کی مقبولیت میں اس وقت اور بھی اضافہ ہوا جب انھوں نے 1978 میں پاکستان ٹیلی ویژن کراچی مرکز کے لیے کلیم عثمانی کا تحریر کردہ نغمہ ” یہ وطن تمہارا ہے ، تم ہو پاسباں اس کے ” نثار بزمی صاحب کے مرتب کردہ ساز میں گایا ۔ یہ ایک ایسا ملّی نغمہ تھا جس میں بزرگانِ وطن نسلِ نو سے کہتے ہیں کہ ” میرِ کارواں ہم تھے ، روحِ کارواں تم ہو ہم تو صرف عنواں تھے ، اصل داستاں تم ہو تفرقوں کے دروازے خود پہ بند ہی رکھنا اس وطن کے پرچم کو سربلند ہی رکھنا ” اس نغمے کی بابت پی ٹی وی کراچی کے سابق جنرل منیجر اطہر وقار عظیم اپنی کتاب “ہم بھی وہاں موجود تھے میں رقم طراز ہیں کہ کلیم عثمانی نے یہ نغمہ دراصل قائدِ اعظمؒ کے تناظر میں لکھا تھ کہ اگر آج قائدِ اعظمؒ بقید حیات ہوتے تو وہ قوم سے کیا تمنا کرتے۔ اس کے لیے کلیم عثمانی نے خود مہدی حسن کی فرمائش کی تھی۔ یہ نغمہ صدرِ مملکت جنرل محمد ضیاء الحق شہیدؒ کو بھی نہ صرف پسند آیا بلکہ اس پر انھوں نے پی ٹی وی کی ستائش بھی کی۔ اس نغمے کے الفاظ، ساز اور آواز ایسے ہیں کہ اگر اسے آج بھی دل سے سنا جائے تو سامع اپنی آنکھ ضبط نہیں کرسکتا۔
شہنشاہِ غزل مہدی حسن خان نے ملّی نغمات کی ایک اہم جہت کلامِ اقبالؒ میں بھی نغمہ سراٸی کی اور بیش بہا کلامِ اقبالؒ ریکارڈ کرواٸے جن میں فارسی اور اردو دونوں شامل ہیں ۔جنگِ ستمبر کے دوران ان کی آواز میں پیامِ مشرق سے منتخب کلام ” صورت نہ پرستم من بت خانہ شکستم من ” بطورِ جنگی ترانہ مقبول ہوا ۔ اس کے علاوہ پاکستان ٹیلی ویژن کے لیے ” یہ گنبدِ میناٸی یہ عالمِ تنہاٸی ” کا شمار بھی مقبول کلامِ اقبالؒ میں ہوتا ہے ۔ یہ کہا جائے کہ مہدی حسن خاں ہی وہ فنکار ہیں جنھیں اب تک سب سے زیادہ کلامِ اقبالؒ پڑھنے کا۔شرف حاصل ہے تو بے جا نہ ہوگا۔
مہدی حسن صاحب نے فلمی صنعت میں بھی شاندار قومی نغمات گاٸے جن میں ریاض شاہد کی فلم ” یہ امن ” میں شامل حبیب جالب کے تحریر کردہ نغمات ” ظلم رہے اور امن بھی ہو ” اور ” اپنی جنگ رہے گی ” آج بھی حریتِ کشمیر کے نماٸندہ نغمات کہلاتے ہیں ۔ مہدی حسن خاں صاحب ہمارے سابقہ محلے میں رہتے تھے بلکہ والد صاحب بتاتے ہیں کہ ہمارا ان کے گھر نہ صرف آنا جانا تھا بلکہ ان کے بیٹے آصف مہدی نے والد صاحب کے ساتھ النور میں ابوذر لاٸبریری بھی قاٸم کی تھی ۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب شہر میں امن و محبت کی فضاء قاٸم تھی اسی اہلِ محلہ سب سے شناسا تھے اور کسی کے گھر جب بھی کوٸی اچھا پکوان بنتا تو پڑوس میں بھجوایا جاتا ۔ دادی مرحومہ کے ہاتھ کاسالن مہدی صاحب اور ان کی اہلیہ شوق سے تناول کرتے تھے ۔ پھر عرصہ گذرا تو ہم ایک بار پھر النور کے سامنے ثمن آباد میں کراٸے پر شفٹ ہوگٸے اور اس دوران روزانہ آفس جانے کے لیے النور موڑ تک پیدل جاتا تو مہدی صاحب اپنے گھر کے سامنے کرسی پر براجمان ہوتے ۔۔ ! اس وقت وہ زیادہ نہیں بول سکتے تھے مگر مسکرا کر سلام کاجواب دیتے اور اکثر ان سے مصافحہ ہوتا ۔ پھر کبھی کبھی عصر یا مغرب کی نماز 2D کے اسٹاپ پر واقع مسجد یا انچولی ک” جامع مسجد بابِ رحمت ﷺ ” میں ادا کرتا تو وہاں وہ کرسی پہ نماز ادا کرتے نظر آتے ۔ بابِ رحمت وہی جامع مسجد ہے جس کے زیرِ انتظام مہدی حسن صاحب کی نمازِ جنازہ انچولی کے میدان میں ادا کی گٸی ۔
بالآخر آج کے دن سُروں کا بہتا یہ ساگر بھی رک گیا اور شہنشاہِ غزل مہدی حسن خاں صاحب سفرِ آخرت پر روانہ ہوگٸے ۔اللّہ انکی لغزشیں معاف کرکے انھیں جنت الفروس میں جگہ عطاء فرماٸے آمین۔ مہدی حسن کے فنّی محاسن پر بے شمار لوگوں نے لکھا ہے اور ان کے بے شمار مداح دنیا بھر میں موجود ہیں مگر میں سمجھتا ہوں کہ میوزک اسکالر برادرم عرفان گبول سے بڑھ کر ان کا کوٸی مداح ہو جن کے پاس نہ صرف خاں صاحب کے بے شمار نایاب ترین شاہکار ہیں بلکہ وہ ان کے فنّی اسلوب پر کسی بڑے ماہرِ موسیقی کی طرح نگاہ رکھتے ہیں اور یہ کہاجاٸے تو بے جا نہ ہوگا کہ عرفان بھاٸی مہدی صاحب کا چلتا پھرتا انساٸیکلویڈیا ہیں ۔۔اسی طرح اندرونِ سندھ سے تعلق رکھنے والے ہمارے دوست جناب عبدالستار صاحب کا نام بھی مہدی صاحب مداحوں میں نمایاں ہے جنھوں نے مہدی صاحب کو سننے کے لیے ایک علیحدہ ٹیپ ریکارڈر رکھا ہے ۔۔ ! بلکہ ان کی اہلیہ نے ایک بار لاعلمی میں کوٸی اور کیسٹ اس میں لگادی تو انھوں نے دوسرا ٹیپ ریکارڈر خریدا ۔۔ !! اندازِ عشق ہے اپنا اپنا ۔۔!
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں