1976ء میں پاکستان ٹیلی ویژن کراچی مرکز سے تاجدار عادل صاحب کی پیشکش میں پروگرام “دنیائے پاکستان” سے جمیل الدین عالی مرحوم کا تحریر کردہ ملٌی نغمہ
“ہم سب کا ایک اشارہ یہ پاکستان ہمارا” نشر ہوا جس میں ایک 76 سالہ بوڑھا فنکار جھوم جھوم کر یہ نغمہ گا رہا تھا اور جب اس کا آخری انترا اور مقطع
“اب فیض بلوچ سنائے
جو سن لے خوش ہوجائے
یہ الفت کا سینگھارا
یہ پاکستان ہمارا “
گاتا تو سننے والا واقعی خوش ہوجاتا۔ یہ تھے بلوچستان اور بلوچی زبان کے مایہ ناز فنکار جناب فیض محمد بلوچ جنھوں نے کئی بلوچی لوک دھنوں کو نئے سرے سے مرتب کرکے بلوچی موسیقی کو دنیا بھر میں متعارف کرواکر خود کو بلوچستان کا لیجنڈ فنکار منوالیا تھا جس کی وجہ سے بلوچ عوام کے ساتھ ساتھ دیگر قومیتوں کے افراد بھی ان کی طرزیں سن کر جھوم جھوم جاتے، لیلیٰ او لیلیٰ اور اے ناز حسنِ والا جیسے بلوچی گیت آج بھی ان کی شناخت ہیں۔ مگر یہ بات بہت کم افراد جانتے ہیں کہ فیض محمد بلوچ بلوچی زبان میں پاکستان کے لیے سب سے زیادہ ملٌی نغمات گانے والے فنکار بھی ہیں ۔۔۔ !!
فیض محمد بلوچ 1901ء میں ایران کے علاقے قصرِکند میں شہہ محمد کے گھر پیدا ہوئے ۔ان کے والد ایران میں محنت مزدوری کرتے تھے، روزگار نہ ہونے کی وجہ سے وہ مند بارڈر سے بلوچستان آگئے اور پھر یہیں کے ہوگئے۔ دس سال تک وہ مکران کے علاقے جیونی گوادر، مند اورتمپ میں مزدوری کرتے رہے۔ اس دوران فیض محمد اپنی بڑی بہن مریم کے گھر لیاری میں رہائش پذیر رہے جہاں وہ لیاری کے ایک ہوٹل میں بیٹھ کر دنبورا بچاکر بلوچی روایتی داستانیں سناتے جن میں جام دھرک اور میر نصیر بلوچ کا کلام اہم ہوتے ۔
فیض کے بڑے بھائی محمد حسن حانی شے مرید کی داستان گایا کرتے تھے مگر جو آواز فیض کی تھی وہ محمد حسن کی گائیکی میں نہ پائی جاتی , گھر میں غربت نے ڈیرے ڈال رکھے تھے اس لیے وہ بھی گائیکی چھوڑ کر مزدوری سے وابستہ ہوگئے۔ فیض محمد بھی بھائی کا ہاتھ بٹانے کے لیے ان کے ساتھ کیماڑی میں مزدوری کرنے جانے لگے ، دورانِ مزدوری وہ شوقیہ غزل گایا کرتے تھے جسے سن کر مزدور کام چھوڑ کر گائیکی سننے کے لیے ان کے گرد جمع ہوتے تھے۔ وہ بلوچی اور فارسی میں زھیروک کا ساز اپنے انداز سے چھیڑتے تھے ۔ فیض محمد کی گائیکی اور موسیقی کا اپنا انداز تھا جسے آج بھی اتنی ہی پذیرائی اور دلکشی حاصل ہے جتنی گزشتہ ادوار میں تھی۔ فیض محمد اپنی طرز کے واحد گلوکار تھے جن کا اندازِ گائیکی دنبورہ کے ساتھ بڑا منفرد ہوتا اور وہ ان گیتوں پر پرفارم کرکے حاضرین کو اپنا گرویدہ بنالیتے اور اسی کی بدولت انھوں نے پاکستان کی نمائندگی کرتے ہوئے فرانس، روس، پولینڈ اور عرب ممالک کے عوام کو بھی جھومنے پر مجبور کردیا تھا۔
قیامِ پاکستان سے پہلے ہی فیض محمد بلوچ نجی محافل میں اپنا لوہا منوا چکے تھے تاہم قیامِ پاکستان کے بعد جب 1948ء میں ریڈیو پاکستان کراچی قائم ہوا تو لیاری میں مقیم نور محمد سارنگی نواز انھیں اپنے ساتھ ریڈیو پاکستان کراچی لے آئے جہاں سندھی اور بلوچی زبان میں گیتوں کے آڈیشن لیے جا رہے تھے ۔ فیض محمد اپنے ساتھ دنبورا بھی لے گئے تھے ۔ انھوں نے جیسے ہی الاپ لگایا تو حمید نسیم اور ڈائریکٹر جنرل ریڈیو پاکستان زیڈ اے بخاری نے اس ہیرے کو پہچان لیا اور انھیں فوراً منتخب کرکے اگلے دن کی بکنگ بھی دے دی مگر وہ 11 ستمبر 1948ء کا دن تھا جس دن قائد ِ اعظمؒ وفات پاگئے تھے اسی لیے 12 ستمبر 1948ء کو فیض محمد بلوچ کا پروگرام نہ ہوسکا تاہم اس کے بعد ریڈیو پاکستان کراچی کے لیے انھوں نے لوک گیتوں کے ساتھ ساتھ بلوچی زبان میں قومی نغمات بھی گائے جن میں ” جی گل زمیں جی گل زمیں” بہت مقبول ہوا جبکہ قائداعظم محمد علی جناح ؒ پر زبیرانی کا تحریر کردہ نغمہ ” سلامت بات قائدِ اعظمؒ” بلوچ عوام کے ساتھ ساتھ دیگر زبانیں بولنے والے عوام میں بھی مقبول ہوا بلوچی زبان میں بھی اولین دور کے یادگار اور اولین ملٌی نغمے ہیں۔اس طرح فیض محمد بلوچ ملٌی نغموں کے ذریعے بلوچی میں حبِ پاکستان اور نظریہ ء پاکستان کی تبلیغ کرتے رہے۔
1958ء میں وہ ریڈیو پاکستان کوئٹہ چلے گئے جہاں انھیں ریڈیو پاکستان کی طرف سے 200 روپے ماہانہ وظیفہ ملتا تھا یہاں بھی انھوں نے مرید بلیدی بگٹی کے ساتھ ملٌی نغمے گائے۔
ستمبر 1965ء میں قوم پر آزمائش کا وقت آیا تو فیض محمد بلوچ نے اپنے دنبورے کو ہتھیار بنالیا اور وہ آواز کے محاذ پر بلوچی میں جنگی ترانے گانے والے پہلے گلوکار بھی بن گئے ۔ انھوں نے جنگ کے آغاز ہی میں عطاء شاد کا تحریر کردہ جنگی ترانہ ” اے وطن پاکیں وطن اے سرمچارانِ وطن” گا کر جنگی ترانوں میں شہرت حاصل کی ۔ اسی جنگ میں ان کا گایا ہوا نغمہ ” پاک سپاہی زندہ بات” بھی مقبول ہوا ۔ اس کے علاوہ ” بہادُر سرمچار” اتنا مقبول ہوا کہ وہ دورانِ جنگ بلوچ رجمنٹ کے بلوچ سپاہیوں کی زبان پر موجود رہتا جس کے الفاظ اور طرز غیر بلوچ عوام میں بھی جذبہ ء حب الوطنی فروزاں کرتے خاص طور پر کورس کے ساتھ جب فیض بلوچ “جاں جانِ” کہتے ، اس کے علاوہ انھوں نے معروف گلوکار عید محمد کے ساتھ مل کر براہوی میں جنگی ترانہ ” وِرنا سپاہی اللہ اکبر اللہ اکبر” بھی گایا ۔ ان تمام نغمات کی دھنیں روایتی بلوچی ساز کے ساتھ ساتھ بلوچی لوک دھنوں پر تھیں اس لیے غیر بلوچ عوام کو الفاظ سمجھ میں نہ آنے کے باوجود بھی وہ اپنے صوتی آہنگ کی بدولت عوام میں پسند کیے جاتے ۔انھی جنگی ترانوں کے باعث صدر مملکت فیلڈ مارشل محمد ایوب خان نے انھیں حکومتِ پاکستان کی جانب سے خصوصی سند سے بھی نوازا۔
جنگ کے اختتام پر 23 مارچ 1966ء کو ان کا گایا ہوا نغمہ ” مبارک بات آزادی مبارک” بھی مقبول ہوا ۔ یہ پہلا بلوچی قومی نغمہ تھا جو مشرقی پاکستان کے ریڈیو اسٹیشنوں سے بھی نشر ہوا ۔ اس نغمے کے خالق جناب عطاء شاد تھے۔
اس کے علاوہ ” مئے ملک پاکیں ملک” نے بھی بلوچی قومی نغمات میں مقبولیت حاصل کی ۔
ارضِ پاک کے ہاریوں کے لیے ان کا گایا ہوا نغمہ ” وشے موسمو اورانی” نے بھی قومی نغمات میں انھیں نمایاں مقام دلایا یہ قومی نغمہ بھی ریڈیو پاکستان ڈھاکا اور راج شاہی سے نشر ہوا جس پر بنگالی کسان بھی جھوم جاتے تھے اسی لیے فیض محمد بلوچ مشرقی پاکستان گئے تو ڈھاکا ریڈیو پر انھوں نے سب سے پہلے یہی نغمہ پرفارم کیا ۔
1968ء میں ان کی آواز میں نہایت سریلا نغمہ ” سلامت بات پاکستان” ملک بھر میں مقبول ہوا جس کا ریکارڈ ٹرانسکرپشن سروس ریڈیو پاکستان کراچی نے تیار کیا کیونکہ وہ پہلے بھی یہ نغمہ براہِ راست گاچکے تھے لیکن وہ اس وقت محفوظ نہیں ہوسکا تھا اسی لیے ٹرانسکرپشن سروس کے نگراں سید سلیم گیلانی نے اس کی ریکارڈنگ کا خصوصی انتظام کیا تھا۔
1970ء کی دہائی میں فیض محمد بلوچ کی آواز میں قومی نغمہ ” منزل جناں منزل” بھی مقبولِ عام ہوا ۔ اس کے علاوہ قائدِ اعظم محمد علی جناحؒ کو خراجِ تحسین ” مئے قائد اعظمؒ زندہ و پائندہ بات” بھی اسی دور کا ایک یادگار بلوچی قومی نغمہ ہے۔
فیض محمد بلوچ نے لیاری سے اٹھ کر نہ صرف ملک گیر بلکہ بین الاقوامی شہرت بھی حاصل کی , انھوں نے روس، یورپ اور مشرقِ وسطیٰ کے ممالک میں اپنی گائیکی اور منفرد انداز کے ذریعے پاکستان کا نام روشن کیا ۔ قدیم بلوچی لوک گیت ” لیلیٰ او لیلیٰ” کو نئے انٹرلیوڈز سے بھی مزین کیا جو ان کی آج بھی پہچان ہے ۔
وہ کراچی میں قیام کے دوران وہ ریڈیو پاکستان کراچی کے ساتھ ساتھ حاجی ولی محمد پریس کی دکان پر مستقل ملازمت کرتے تھے ۔ اس طرح بڑا نام اور مقام ہونے کے باوجود ان کی زندگی مستقل محنت سے عبارت ہے۔
1979ء میں صدرِ مملکت جنرل محمد ضیاء الحق نے انھیں صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی سے بھی نوازا۔
پاکستان کے اس نامور اور بلوچی زبان کے محبِ پاکستان گلوکار نے 6 مئی 1980 ء کو کوئٹہ میں وفات پائی ۔ ان کے صاحبزادے تاج محمد تاجل بلوچ اس وقت پاکستان ٹیلی ویژن کوئٹہ مرکز میں بطور بینجو نواز خدمات انجام دے رہے ہیں ۔ اس وقت بلوچستان میں جو صوبائیت کا ناسور اور چند شر پسندوں کی وجہ سے لسانیت کا زہر پھیلانے کی کوشش کی جا رہی ہے اس میں فیض محمد بلوچ کی آواز میں ” پاکستان زندہ بات” کی صدا اس زہر کا تریاق کرتی ہے ۔ضرورت اس امر کی ہے کہ ان نغمات کو بلوچی سازوں کے ساتھ جدید آلات پر ری ڈو کیا جائے کیونکہ بلوچی موسیقی میں جو کشش ہے وہ ہر ایک کو بھاتی ہے ۔ اس طرح پاکستان کے نام بلوچی نغماتِ وطن کی بدولت پورا پاکستان ” پاکستان زندہ بات” کے نعروں سے گونج اٹھے گا اور بلوچی زبان کی صدائے بازگشت بھی پیغامِ پاکستان پہنچاتے ہوئے ہر ایک کے دل میں جاگزیں ہوجائے گی ۔ اللہ تعالیٰ فیض محمد بلوچ کی مغفرت فرما کر جنت الفردوس میں مقام دے ۔ آمین
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں