کیا عمران خان کے دوبارہ حاکم بننے کی راہ میں اب کوئی رکاوٹ نہیں رہی؟ سینئر صحافی حامد میر کا بے لاگ تجزیہ

لاہور (پی این آئی ) ریٹائرڈ محبان وطن کبھی اپنی سیاسی سرکس کے لئے شیر پالتے ہیں اور کبھی مور ۔۔۔9 مئی کے واقعات جن محبان وطن کے ’’فیض‘‘ کا نتیجہ ہیں انہیں آج نہیں تو کل اپنے قومی جرائم کا حساب دینا پڑے گا۔

 

 

سینئرصحافی و تجزیہ کار حامد میر نے اپنے بلاگ بعنوان “چور کو پڑ گئے مور” میں لکھا کہ یہ پرانے زمانے کی کہانی ہے لیکن کور کمانڈر لاہور کے گھر پر تحریک انصاف کے حملے اور وہاں سے ایک مور کی چوری نے یہ کہانی مجھے پھر سے یاد دلائی ہے۔ ایک دفعہ کسی چور نے ایک ظالم کوتوال کےگھر سے قیمتی ہار چور ی کیا اور اپنے گھر میں زمین کھود کر چھپا دیا۔ چور نے اپنے گھر میں ایک مور پال رکھا تھا۔ مور چھوٹے موٹے سانپ کھانے کا شوقین ہوتا ہے۔ چور کے پالتو مور نے زمین کھودی اور ہار کو سانپ سمجھ کر کھا گیا۔ چور نے بہت کوشش کی کہ مور چوری شدہ ہار کو واپس اگل دے لیکن کامیاب نہ ہوا۔یہ واردات چھپی نہ رہ سکی اور چور گرفتار ہوگیا۔ کوتوال نے چور سے پوچھا کہ میرا ہار کہاں ہے چور نے بتایا کہ ہار کو مورکھا گیا۔ یہ سن کر کوتوال نے کہا کہ ’’چور کو پڑ گیا مور‘‘ بعد ازاں کوتوال نے مور کا پیٹ چاک کیا اور اپنا ہار برآمد کر لیا لیکن ’’چوروں کو پڑ گئے مور‘‘ ایک محاورہ بن گیا جو آج کل تحریک انصاف کے حلقوں میں بڑا پاپولر ہے۔ تحریک انصاف کے جس کارکن نے کور کمانڈر لاہور کے گھر سے مور چوری کیا اس سے موقع پر موجود وائس آف امریکہ کے نمائندے نے پوچھا کہ یہ مور آپ کیوں لے جا رہے ہیں؟ تحریک انصاف کے ٹائیگر نے جواب میں کہا کہ یہ عوام کا لوٹا ہوا مال ہے جو ہم واپس لے جا رہے ہیں۔ موقع پر موجود ایک انگلش سپیکنگ آنٹی نے صحافیوں کو بڑے فخر سے بتایا کہ وہ کور کمانڈر کے کچن کی ریفریجریٹر سے سٹرابری چرا کر لائی ہے اور اپنی سہیلیوں کے ساتھ مل کر خوب انجوائے کر رہی ہیں۔ تحریک انصاف والوں کو محاورہ تو یاد رہا لیکن وہ اس محاورے کا پس منظر بالکل نہیں جانتے۔ وہ ایک مور کو لوٹ کا مال قرار دے رہے ہیں لیکن یہ بھول رہے ہیں کہ 9 مئی 2023ء کو انہوں نے بھی اس پالتو مور کا کردار ادا کیا جسے ایک چور نے پال ر کھا تھا۔ میرا اشارہ اس چور کی طرف نہیں جس نے توشہ خانہ سے چوری کی۔

 

 

 

توشہ خانہ سے بھی کئی ہار اور گھڑیاں چوری ہوئیں اور کئی مور انہیں سانپ سمجھ کر نگل گئے۔ میرا اشارہ ان ریٹائرڈ محبان وطن کی طرف ہے جو کبھی اپنی سیاسی سرکس کے لئے شیر پالتے ہیں اور جب شیر بغاوت کر دیتا ہے تو پھر مور پال لیتے ہیں۔ ان ریٹائرڈ محبان وطن کے ادارے کی عزت کسی قیمتی ہار سے کم نہ تھی لیکن افسوس کہ ان کا اپنا ہی پالا ہوا مور اس عزت کو نگل گیا۔ 9 مئی کے واقعات جن محبان وطن کے ’’فیض‘‘ کا نتیجہ ہیں انہیں آج نہیں تو کل اپنے قومی جرائم کا حساب دینا پڑے گا۔ کوتوال نے صرف مور کا پیٹ چاک کرکے اپنا چوری شدہ ہار برآمد نہیں کرنا بلکہ مور پالنے والے چوروں کو بھی ان کے جرائم کی سزا دلوانی ہے۔مسئلہ یہ ہے کہ آج کل کوتوال کو عدالتوں پر بھی اعتماد نہیں کیونکہ عدالتوں میں بیٹھے ہوئے کچھ قاضی قانون کے مطابق نہیں بلکہ اپنی بیگمات کی فرمائش پر فیصلے کرتے ہیں۔ کیا عمران خان نے قاضی کی مدد سے کوتوال اور اس کے اوپر بیٹھی ہوئی حکومت کو مکمل طور پر روند ڈالا ہے؟ کیا عمران خان کے دوبارہ حاکم بننے کی راہ میں اب کوئی رکاوٹ نہیں رہی؟ یہ لڑائی اتنی سادہ نہیں جتنی نظر آ رہی ہے۔ یہ لڑائی پاکستان کی سلامتی اور بقا ءکے لئے خطرہ بن رہی ہے۔ اس لڑائی کی وجوہات کو سمجھنا اور ان وجوہات کو ختم کرنا بہت ضروری ہے۔ ان وجوہات کو ختم کرنے کے لئے ہمیں کچھ تلخ حقائق کو تسلیم کرنا ہوگا لیکن افسوس کہ آج کے پاکستان میں عمران خان، نواز شریف، شہباز شریف، آصف علی زرداری، بلاول بھٹو زرداری اور مولانا فضل الرحمان سے لے کر جسٹس عمر عطا بندیال تک کوئی بھی سچ سننے اور کہنے کے لئے تیار نہیں۔

تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں