تحریک تحفظ آئین پاکستان کے ترجمان اخونزادہ حسین نے انکشاف کیا ہے کہ بانی پی ٹی آئی نے مذاکرات کا اختیار محمود اچکزئی اور راجہ ناصر عباس کو دے دیا ہے۔
جیو نیوز کے پروگرام جیو پاکستان میں گفتگو کرتے ہوئے اخونزادہ حسین نے کہا کہ ملک اس وقت سنگین بحران سے گزر رہا ہے، جس سے نکلنے کے لیے ایک نئے قومی میثاق کی ضرورت ہے۔ ان کے مطابق محمود اچکزئی پہلے ہی واضح کر چکے ہیں کہ مذاکرات کا مرکز اڈیالہ جیل ہوگا اور وہیں سے رہنمائی لی جائے گی۔ اخونزادہ حسین نے کہا کہ تحریک تحفظ آئین نے تمام سیاسی قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ رکھا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اپوزیشن کی جانب سے مذاکرات کی ابتدا نہیں کی جاتی بلکہ حکومت ہی پہل کرتی ہے، اور حکومت کی جانب سے آنے والی مذاکراتی پیشکش کا جواب دیا جا چکا ہے۔
انہوں نے مولانا فضل الرحمان کو قابلِ احترام رہنما قرار دیتے ہوئے بتایا کہ انہیں قومی کانفرنس میں مدعو کیا گیا تھا، تاہم وہ کراچی میں مصروفیات کے باعث شرکت نہ کر سکے۔ اخونزادہ حسین کے مطابق تحریک تحفظ آئین اور مولانا فضل الرحمان کے بیانیے میں کافی حد تک ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ فواد چوہدری کی نیشنل ڈائیلاگ کمیٹی سے متعلق سوال پر اخونزادہ حسین نے دو ٹوک مؤقف اختیار کرتے ہوئے کہا کہ اس کمیٹی سے ان کا کوئی تعلق نہیں اور نہ ہی وہ اسے کوئی اہمیت دیتے ہیں، کیونکہ انہیں معلوم نہیں کہ یہ کس ایجنڈے پر اور کس کے کہنے پر کام کر رہی ہے۔
دوسری جانب، اسی پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے وزیراعظم کے کوآرڈینیٹر برائے خیبرپختونخوا اختیار ولی نے کہا کہ گزشتہ دس دنوں میں بیرسٹر گوہر تین مرتبہ وزیراعظم سے مذاکرات کے لیے رابطہ کر چکے ہیں۔ اختیار ولی نے کہا کہ قومی اتحاد اور یکجہتی کے لیے محمود اچکزئی سمیت کوٹ لکھپت جیل میں قید افراد سے بھی بات چیت کی جا سکتی ہے، کیونکہ وزیراعظم کے نزدیک قومی مفاد میں کسی سے بھی مذاکرات ممکن ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ بانی پی ٹی آئی کا محمود اچکزئی کو مذاکرات کا اختیار دینا دراصل اپنی ہی جماعت پر عدم اعتماد کا اظہار ہے، اور امکان ہے کہ مقصد حاصل ہونے پر اچکزئی کو نظرانداز کر دیا جائے۔
اختیار ولی کا کہنا تھا کہ وزیراعظم دو برس میں سات مرتبہ اپوزیشن کو مذاکرات کی دعوت دے چکے ہیں، جبکہ شہباز شریف اپوزیشن لیڈر کی حیثیت سے بھی میثاقِ معیشت کی پیشکش کر چکے تھے۔ ان کے مطابق اگر اپوزیشن کا لہجہ مثبت رہا تو مذاکرات سودمند ثابت ہو سکتے ہیں، تاہم غیر سنجیدہ زبان سے بات آگے نہیں بڑھے گی۔ انہوں نے کہا کہ ماضی میں گورنر راج لگانے کے مواقع موجود تھے مگر اس آپشن کو استعمال نہیں کیا گیا، البتہ ریاست کے تحفظ کے لیے اب یہ آپشن میز پر موجود ہے۔ اختیار ولی نے مزید کہا کہ اگرچہ ان کی جماعت میں سخت مؤقف رکھنے والے رہنما مذاکرات کے حق میں نہیں، مگر وزیراعظم نے سیاسی برداشت کا مظاہرہ کرتے ہوئے تحریک انصاف کو ایک بار پھر مذاکرات کی دعوت دی ہے، اور اب گیند اپوزیشن کے کورٹ میں ہے۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں






