معاشی استحکام، پولیس اور عدلیہ میں کرپشن کی پوزیشن کیا ؟ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل سروے میں بڑے انکشافات

اسلام آباد: ملک بھر میں پولیس، ٹینڈر و پروکیورمنٹ اور عدلیہ کو سب سے زیادہ کرپٹ شعبوں کے طور پر دیکھا جا رہا ہے، جبکہ اکثریت کے مطابق صوبائی حکومتیں مقامی حکومتوں کے مقابلے میں زیادہ کرپٹ سمجھی جاتی ہیں۔

ٹرانس پیرنسی انٹرنیشنل پاکستان کی جانب سے جاری کردہ نیشنل کرپشن پرسیپشن سروے 2025 کے مطابق 77 فیصد شرکا کرپشن روکنے کی سرکاری کوششوں سے مطمئن نہیں۔ صوبائی سطح پر عدم اطمینان بلوچستان میں 80 فیصد، پنجاب میں 78 فیصد اور سندھ و خیبر پختونخوا میں 75 فیصد رہا۔

سروے میں یہ بھی سامنے آیا کہ 66 فیصد افراد نے کہا کہ انہیں سرکاری کاموں کے لیے رشوت دینے کی صورتِ حال کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔

معاشی صورتحال کے حوالے سے 57 فیصد شہریوں نے بتایا کہ گزشتہ 12 ماہ میں ان کی قوتِ خرید میں کمی آئی، جبکہ 43 فیصد نے حالات کو بہتر قرار دیا۔ اس کے باوجود 58 فیصد افراد نے اتفاق کیا کہ حکومت نے آئی ایم ایف پروگرام اور ایف اے ٹی ایف سے اخراج کے ذریعے معیشت کو مستحکم کیا۔

سیاسی فنڈنگ سے متعلق عوامی رائے مضبوط رہی، جہاں 42 فیصد نے سیاسی جماعتوں کو کاروباری اداروں کی جانب سے فنڈنگ پر مکمل پابندی کی حمایت کی اور 41 فیصد نے اس کو منظم کرنے کا مطالبہ کیا۔

55 فیصد شہریوں کا کہنا تھا کہ سرکاری اشتہارات میں سیاسی جماعتوں کے نام اور پارٹی قیادت کی تصاویر استعمال نہیں ہونی چاہئیں۔

سروے میں بتایا گیا کہ 59 فیصد افراد نے صوبائی حکومتوں پر عدم اعتماد کا اظہار کیا، جن میں پنجاب میں یہ شرح 70 فیصد رہی۔

احتسابی اداروں پر بھی عدم اعتماد سامنے آیا، جہاں 78 فیصد افراد نے نیب اور ایف آئی اے جیسے اداروں کے خود احتساب کا مطالبہ کیا۔ اس کی بنیادی وجوہات میں شفافیت کا فقدان، آزاد نگرانی کی کمی اور سیاسی انتقام کا تاثر شامل ہیں۔

قومی سطح پر 24 فیصد افراد نے پولیس کو سب سے زیادہ کرپٹ ادارہ قرار دیا، جبکہ ٹینڈر و پروکیورمنٹ 16 فیصد اور عدلیہ 14 فیصد کے ساتھ شامل رہے۔

پنجاب میں پولیس سے متعلق منفی تاثر سب سے زیادہ 34 فیصد رہا، جبکہ بلوچستان میں 22 فیصد، سندھ میں 21 فیصد اور خیبر پختونخوا میں 20 فیصد رپورٹ ہوا۔

پروکیورمنٹ کے شعبے میں بلوچستان میں تشویش کی شرح 23 فیصد، خیبر پختونخوا میں 18 فیصد، سندھ میں 14 فیصد اور پنجاب میں 9 فیصد رہی۔

عدلیہ میں کرپشن کا تاثر خیبر پختونخوا میں 18 فیصد اور پنجاب میں 17 فیصد رہا، جبکہ سندھ اور بلوچستان میں یہ شرح 12 فیصد رہی۔

رشوت کے حوالے سے سندھ میں 46 فیصد افراد نے رشوت دینے کا تجربہ بتایا، اس کے بعد پنجاب 39 فیصد، بلوچستان 31 فیصد اور خیبر پختونخوا 20 فیصد رہے۔

کرپشن کی بڑی وجوہات میں احتساب کے فقدان، شفافیت کی کمی اور عدالتی فیصلوں میں تاخیر شامل بتائی گئیں۔

سروے کے مطابق صوبائی اینٹی کرپشن اداروں کو غیر موثر سمجھا جاتا ہے، جہاں 33 فیصد نے انہیں بالکل غیر موثر اور 34 فیصد نے کم موثر قرار دیا۔

سندھ اور پنجاب میں اینٹی کرپشن اداروں سے متعلق منفی تاثر سب سے زیادہ رپورٹ ہوا۔

صحت کے شعبے میں کرپشن سے متعلق 67 فیصد افراد نے کہا کہ اس کا براہ راست اثر لوگوں کی زندگیوں پر پڑتا ہے۔ اسپتالوں میں کرپشن کا تاثر 38 فیصد، ڈاکٹروں میں 23 فیصد اور فارماسیوٹیکل شعبے میں 21 فیصد رہا۔

صوبائی سطح پر اسپتالوں میں کرپشن کا تاثر سندھ میں 49 فیصد، خیبر پختونخوا میں 46 فیصد، بلوچستان میں 32 فیصد اور پنجاب میں 26 فیصد رہا۔

ڈاکٹروں میں کرپشن کے حوالے سے بلوچستان 35 فیصد کے ساتھ سرفہرست رہا، جبکہ فارماسیوٹیکل شعبے میں پنجاب 30 فیصد کے ساتھ آگے رہا۔

کرپشن رپورٹنگ کے نظام سے 70 فیصد افراد ناواقف نکلے، جبکہ جو افراد واقف تھے ان میں سے بھی صرف 43 فیصد نے کبھی رپورٹ درج کرائی۔

اکثریت نے نام ظاہر نہ کرنے کی ضمانت اور انعامات کو کرپشن کی رپورٹنگ کے لیے حوصلہ افزا عوامل قرار دیا۔

چیریٹی اداروں کے بارے میں 51 فیصد افراد نے رائے دی کہ ٹیکس سے مستثنیٰ این جی اوز، ٹرسٹس، اسپتالوں اور تعلیمی اداروں کو فیس وصول نہیں کرنی چاہیے، جبکہ 53 فیصد نے عطیات کی مکمل تفصیلات عوام کے سامنے لانے کا مطالبہ کیا۔

سروے کے مطابق رشوت کے سب سے زیادہ واقعات سندھ میں رپورٹ ہوئے، اس کے بعد پنجاب، بلوچستان اور خیبر پختونخوا کا نمبر آیا۔

تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں

close