ایشیائی ترقیاتی بینک کی جانب سے ایشین واٹر ڈیولپمنٹ آؤٹ لک جاری کر دیا گیا ہے، جس میں انکشاف ہوا ہے کہ پاکستان کی 80 فیصد آبادی کو پینے کے لیے صاف پانی میسر نہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان شدید آبی بحران کا شکار ہے اور پانی کے ذخائر تیزی سے کم ہو رہے ہیں، جس کے باعث 80 فیصد سے زائد آبادی صاف پینے کے پانی سے محروم ہو چکی ہے۔
پاکستان میں فی کس پانی کی دستیابی 3500 مکعب میٹر سے کم ہو کر 1100 مکعب میٹر رہ گئی ہے، جبکہ زیر زمین پانی کے بے دریغ استعمال سے زہریلا آرسینک پھیل رہا ہے۔ ماحولیاتی تبدیلی، بڑھتی ہوئی آبادی اور ناقص پانی مینجمنٹ کی وجہ سے بحران مزید سنگین ہو رہا ہے، اور زرعی شعبہ سب سے زیادہ پانی ضائع کر رہا ہے۔
رپورٹ کے مطابق واٹر سیکیورٹی کے بغیر معاشی ترقی ممکن نہیں، پاکستان میں پالیسیاں مضبوط ہونے کے باوجود عملدرآمد کمزور اور سست ہے، جبکہ مالی وسائل کی شدید کمی بھی درپیش ہے، اس شعبے میں اصلاحات اور سرمایہ کاری ناگزیر قرار دی گئی ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اگلی دہائی میں پانی کے شعبے کے لیے 10 سے 12 ٹریلین روپے درکار ہوں گے جبکہ موجودہ سرمایہ کاری ناکافی ہے، 2022 کے سیلاب نے لاکھوں افراد کو بے گھر کیا اور ملک میں سیلاب اور خشک سالی کے خطرات بدستور برقرار ہیں۔
پاکستان کو ایس ڈی جیز کے اہداف کے حصول کے لیے سالانہ 12 ارب ڈالر درکار ہیں، جبکہ ناقص پانی اور صفائی کے نظام کے باعث سالانہ 2.2 ارب ڈالر کا معاشی نقصان ہو رہا ہے۔ شہری علاقوں میں اربن فلڈنگ اور گندے پانی کا اخراج بڑے چیلنج بنے ہوئے ہیں۔
ایشین ڈویلپمنٹ بینک کے مطابق دیہی علاقوں میں صاف پانی تک رسائی کم ہے جبکہ آلودگی اور نگرانی کے مسائل موجود ہیں، شہری پانی کا انفرا اسٹرکچر کمزور ہے اور گندا پانی بغیر ٹریٹمنٹ خارج کیا جا رہا ہے۔
صنعتی شعبہ تقریباً مکمل طور پر زیرِ زمین پانی پر انحصار کرتا ہے، پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت ناکافی ہے اور پرانا نظام بحران کو مزید بڑھا رہا ہے۔ آبی ماحولیاتی نظام مزید بگڑ رہا ہے اور دریاؤں و ویٹ لینڈز پر دباؤ بڑھ رہا ہے، تاہم پاکستان کا پانی سیکیورٹی اسکور 2013 سے 2025 کے دوران 6.4 پوائنٹس بہتر ہوا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پانی کے شعبے میں تکنیکی صلاحیت اور ادارہ جاتی رابطہ کمزور ہے، بڑے منصوبوں پر سرمایہ کاری اور اصلاحات پر توجہ محدود رہی ہے، جبکہ صنفی مساوات اور سماجی شمولیت کا عمل سست رفتاری سے جاری ہے۔
اے ڈی بی نے پانی کے معیار کی نگرانی کے لیے ایک آزاد اتھارٹی کے قیام کی سفارش کی ہے اور خبردار کیا ہے کہ طرز حکمرانی میں بہتری نہ آئی تو ترقی غیر مساوی رہے گی۔ رپورٹ کے مطابق ایشیا پیسفک خطے میں 2.7 ارب افراد پانی کی عدم دستیابی سے باہر آ چکے ہیں۔
براعظم ایشیا میں واٹر سیکیورٹی کے لیے 250 ارب ڈالر درکار ہیں، ماحولیاتی زوال اور فنڈنگ کی کمی مستقبل میں خطرات بڑھا رہی ہے، جبکہ ایشیا دنیا کے 41 فیصد سیلابوں کا مرکز ہے۔ پانی اور صفائی کے منصوبوں پر موجودہ اخراجات ضرورت کا صرف 40 فیصد ہیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ واٹر سیکیورٹی کے لیے سالانہ 150 ارب ڈالر کے فنڈنگ گیپ کا سامنا ہے اور 2040 تک خطے میں صاف پانی کے نظام کے لیے 4 ٹریلین ڈالر درکار ہوں گے۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں






