پاکستان میں کرپشن سے متعلق آئی ایم ایف رپورٹ میں اہم انکشافات

آئی ایم ایف نے پاکستان میں بدعنوانی اور ناقص گورننس کو سنگین چیلنج قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ عوامل ملکی معاشی سرگرمیوں اور ادارہ جاتی کارکردگی کو متاثر کر رہے ہیں۔ ادارے نے اپنی تازہ رپورٹ میں 15 نکاتی اصلاحاتی ایجنڈا فوری طور پر نافذ کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے، جس کے ذریعے پاکستان کی معیشت میں پانچ سال کے دوران 5 سے 6.5 فیصد تک بہتری لائی جا سکتی ہے۔

رپورٹ میں اہم سرکاری اداروں کو حکومتی ٹھیکوں میں خصوصی مراعات ختم کرنے، ایس آئی ایف سی کے فیصلوں میں شفافیت بڑھانے اور مالیاتی اختیارات پر پارلیمانی نگرانی سخت کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔ آئی ایم ایف نے انسداد بدعنوانی اداروں میں اصلاحات کی ضرورت پر بھی زور دیا اور پالیسی سازی و عملدرآمد میں شفافیت و جوابدہی کو لازمی قرار دیا ہے۔

رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ٹیکس نظام پیچیدہ اور کمزور انتظام و نگرانی کی وجہ سے بدعنوانی کا شکار ہے، جبکہ عدالتی نظام کی پیچیدگی اور تاخیر معاشی سرگرمیوں کو متاثر کر رہی ہے۔ آئی ایم ایف نے ہدایت دی کہ ایس آئی ایف سی کی سالانہ رپورٹ فوری جاری کی جائے اور تمام سرکاری خریداری 12 ماہ میں ای-گورننس سسٹم پر منتقل کی جائے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بجٹ اور اخراجات میں بڑے فرق، مالیاتی شفافیت پر سوالات اٹھاتے ہیں اور سرکاری وسائل کی تقسیم میں بیوروکریسی اور حکومتی اثرات کی وجہ سے عدم توازن پیدا ہوتا ہے۔ جنوری 2023 سے دسمبر 2024 تک نیب کی ریکوری 5.3 ٹریلین روپے رہی، جو ملک کی معیشت کے لیے نقصان کا صرف ایک حصہ ہے۔

آئی ایم ایف نے نشاندہی کی کہ پاکستان میں اشرافیہ سرکاری پالیسوں پر قابض ہو کر اپنے مفاد کے لیے عمل درآمد روکتی ہے، جس سے عوامی اعتماد متاثر ہوتا ہے اور پیداوار و ترقی کے مواقع ضائع ہوتے ہیں۔ رپورٹ میں زور دیا گیا کہ گورننس اور شفافیت میں بہتری سے معیشت میں نمایاں فوائد حاصل ہو سکتے ہیں۔

تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں

close