چترال کا خوشگوار موسم اور زرخیز مٹی خوبانی کی کاشت کے لیے نہایت موزوں ہیں۔ ان دنوں خوبانی پوری طرح پک چکی ہے، تاہم کچھ مسائل کی وجہ سے بڑی مقدار میں یہ قیمتی پھل ضائع ہو رہا ہے۔
خوبانی کا درخت عموماً 8 سے 12 میٹر (24 سے 48 فٹ) بلند ہوتا ہے، جس کا تنا تقریباً 40 سینٹی میٹر (16 انچ) موٹا ہوتا ہے، اور یہ درخت 20 سے 25 سال تک پھل دیتا رہتا ہے۔
یہ پھل زیادہ تر پہاڑی اور سرد علاقوں میں پیدا ہوتا ہے۔ پاکستان میں اعلیٰ معیار کی خوبانی کا مرکز وادیٔ ہنزہ کو سمجھا جاتا ہے، جبکہ دیگر پیداواری علاقوں میں چترال، گلگت، بلتستان، مردان، زیارت، ہزارہ، قلات، سوات، ایبٹ آباد اور کوئٹہ شامل ہیں۔
ہر سال یہ مشاہدہ کیا جاتا ہے کہ خوبانی کی بڑی مقدار مارکیٹ تک پہنچنے سے پہلے ہی ضائع ہو جاتی ہے۔ اس کی بڑی وجوہات میں ناقص سڑکیں، مارکیٹ تک محدود رسائی، اور جدید زرعی معلومات کا فقدان شامل ہیں۔
اگر کسانوں کو حکومت کی جانب سے جدید تربیت، زرعی سہولیات اور پروسسنگ کا نظام فراہم کیا جائے تو خوبانی کی یہ صنعت مقامی معیشت کے لیے نہایت سودمند ثابت ہو سکتی ہے۔
اگرچہ بڑھتی ہوئی آبادی نے باغبانی کو محدود کر دیا ہے، تاہم اب بھی بیشتر گھروں میں چند درخت اور پودے موجود ہیں، جو گھریلو ضروریات کے لیے پھل فراہم کرتے ہیں۔ بعض گھروں میں آج بھی خشک میوہ جات کی خاصی مقدار ذخیرہ کی جاتی ہے، جو مقامی ثقافت اور خودکفالت کی خوبصورت مثال ہے۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں