اسلام آباد ہائی کورٹ نے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی صحت، رہائی اور وطن واپسی سے متعلق کیس میں رپورٹ پیش نہ کرنے پر وفاقی کابینہ کے تمام ارکان کو توہین عدالت کا شوکاز نوٹس جاری کر دیا۔
جسٹس سردار اعجاز اسحاق نے ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کی درخواست پر سماعت کی اور ریمارکس دیے کہ اگر حکومت نے رپورٹ پیش نہ کی تو توہین عدالت کی کارروائی شروع کی جائے گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ وہ عدالت کی عزت اور انصاف کے تقاضوں کو ہر صورت برقرار رکھیں گے۔ سماعت کے دوران جسٹس سردار اسحاق نے روسٹر میں تبدیلی پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ججز کے روسٹر کو ماضی میں مخصوص مقدمات کے لیے استعمال کیا جا چکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ فوزیہ صدیقی کا کیس الگ نوعیت کا ہے اور ان کے لیے عدالت کا دروازہ ہمیشہ کھلا رہے گا۔ جج نے واضح کیا کہ وہ چھٹی کے باوجود انصاف کی فراہمی کے لیے موجود ہیں۔
جسٹس سردار اسحاق کا کہنا تھا کہ عدالت کو چیف جسٹس آفس نے کازلسٹ جاری نہ ہونے کی اطلاع دی، جس پر انہوں نے اپنے پرسنل سیکریٹری کو ہدایت کی کہ چیف جسٹس کو خط بھیجا جائے۔ تاہم، انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ چیف جسٹس کو چند سیکنڈ بھی خط پر دستخط کرنے کے لیے نہیں ملے۔ وکیل عمران شفیق نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ اگر حکومت نے حکم امتناع لینا ہوتا تو فوری طور پر بینچ تشکیل دیا جا چکا ہوتا۔ انہوں نے عدالت کو بتایا کہ سپریم کورٹ میں کیس اس لیے مقرر نہیں ہو رہا کیونکہ جسٹس منصور علی شاہ اس وقت وہاں موجود ہیں، اور کیس اسی وقت لگے گا جب ججز کا روسٹر تبدیل ہوگا۔
عدالت نے سماعت کے اختتام پر کہا کہ کیس کی آئندہ سماعت چھٹیوں کے بعد پہلے ورکنگ ڈے پر ہوگی، اور حکم دیا کہ وفاقی کابینہ کے تمام اراکین کو توہین عدالت کے شوکاز نوٹس جاری کیے جائیں۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں