علماء نے مولانا فضل الرحمان کے مطالبے کی مخالفت کردی

اسلام آباد (پی این آئی)جامعۃ الرشید کراچی کے سربراہ مفتی عبد الرحیم کا کہنا ہے کہ وزیراعظم عمران خان کے دور میں ایک معاہدہ ہوا تھا جس میں یہ طے ہوا کہ تمام مدارس وزارت تعلیم کے ماتحت ہوں گے اور جتنے بھی غیر ملکی طلباء ہیں ان کو نو سال کا ویزا ملے گا، اُسی کی بنیاد پر اٹھارہ ہزار مدارس ہیں اور بائیس لاکھ طلبہ پڑھ رہے ہیں اور ان کی تعلیم بھی جاری ہے، رجسٹریشن بھی ہو رہی ہے اور کسی قسم کی بھی کوئی مداخلت نہیں ہو رہی۔

انہوں نے کہا کہ ابھی کچھ مدت پہلے، ڈھائی ہزار طلبہ کو فری لانسنگ کی تربیت دی گئی ہے اور تقریباً ساڑھے سات کروڑ روپے طلبہ کو کیش بھی دیا گیا ہے۔ طلبہ کا بہت فائدہ ہو رہا ہے اور مدارس کا تحفظ بھی ہے۔ ہمارے اٹھارہ ہزار مدارس ہیں جو وزارت تعلیم کے ماتحت ہیں ان کو کسی بھی قسم کا کوئی ایسا مسئلہ نہیں ہے۔مفتی عبدالرحیم نے کہا کہ اگر اس میں کوئی بھی ترمیم اور تبدیلی کی گئی تو اٹھارہ ہزار مدارس کی رجسٹریشن بھی منسوخ ہو جائے گی تو یہ ہمارے لئے ناقابل قبول ہے۔

انہوں نے کہا کہ مولانا فضل الرحمن کے مدارس اگر وزارت صنعت و تجارت میں جانا چاہتے ہیں تو ہمیں اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ ہمارے اٹھارہ ہزار مدارس ہیں جس میں بائیس لاکھ طلبہ ہیں اور بڑی محنت سے یہ نظام تعلیم بنایا گیا ہے، ہم اس کو کھونا نہیں چاہتے اور اس کا نقصان برداشت نہیں کریں گے۔

سرکاری ذرائع کے مطابق ڈی جی آر ای (DGRE) اور سوسائٹی ایکٹ کے مابین تقابل ایک چشم کشا حقیقت ہے، جہاں ڈی جی آر ای وزارت تعلیم کے ماتحت ایک منظم اور معیاری نظام کے تحت مدارس کی رجسٹریشن کو سہل، تیزرفتار اور شفاف بناتا ہے، وہیں سوسائٹی ایکٹ وزارت صنعت و تجارت یا وزارت داخلہ کے تحت مدارس کو نہ صرف غیرمعیاری قانونی بندشوں میں جکڑتا ہے بلکہ رجسٹریشن کے پیچیدہ مراحل، بھاری فیسوں اور کاغذی بوجھ تلے دبانے کے مترادف ہے۔

تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں