اسلام آباد(پی این آئی) سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس منیب اختر کی جانب سے رجسٹرار سپریم کورٹ کو لکھا گیا خط منظر عام پر آگیا۔
جسٹس منیب اختر نے اپنے خط میں لکھا کہ 63 اے نظرثانی کیس آج 5 رکنی لارجر بینچ کے سامنے سماعت کے لیے مقرر کیا گیا، 5 رکنی بینچ 23 ستمبر کی ججز کمیٹی میں ترمیمی آرڈیننس کے تحت تشکیل دیا گیا، ترمیمی آرڈیننس کے تحت بینچز کی تشکیل پر سینئر جج نے خط میں آئینی سوالات اٹھائے ہیں۔ جسٹس منیب نے خط میں کہا ہے کہ چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے جواب میں سینئر جج کو خط لکھا مگر انہوں نے اپنے خط میں آئینی سوالات کا جواب نہیں دیا، افسوس کی بات ہے چیف جسٹس کے خط پر ایک مہم چلی۔
سینئر جج نے اپنے خط میں مزید کہا کہ کمیٹی کی گزشتہ میٹنگ میں چیف جسٹس نے سینئر جج کی سربراہی میں بینچ کی رائے دی، چیف جسٹس اب بینچ کے سربراہ کیوں بنے، وجوہات سامنے نہیں آئیں،لارجر بینچ میں ایڈہاک جج جسٹس مظہرعالم میاں خیل کو شامل کیا گیا۔جسٹس منیب نے خط میں ذکر کیا کہ 19 جولائی کی ججز کمیٹی میں ایڈہاک ججز کے امور طے کرلیے تھے، یہ درست ہےکہ جسٹس مظہرعالم میاں خیل فیصلہ دینے والے بینچ کا حصہ تھے لیکن جسٹس مظہرعالم میاں خیل کی بینچ میں شمولیت آرٹیکل 182 کے خلاف ہے۔
جسٹس منیب نے خط میں کہا کہ موجودہ حالات میں 63 اے نظرثانی کی سماعت کےبینچ میں شمولیت سےمعذرت کرتا ہوں، میری معذرت کو کیس سننے سے انکار نہ سمجھا جائے، عدم دستیابی کے باعث بینچ میں شریک نہیں ہو سکتا، میرا خط 63 اےنظرثانی کیس کی فائل کا حصہ بنایا جائے اور بینچ میں عدم موجودگی کا غلط مطلب نہ سمجھا جائے۔ واضح رہے کہ جسٹس منیب اختر نے آرٹیکل 63 اے کی تشریح سے متعلق کیس کی سماعت کرنے سے معذرت کرلی ہے جب کہ چیف جسٹس نے کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیے کہ مقدمات کے فیصلوں کی تنخواہ ملتی ہے، عدالت کام بند نہیں کرسکتی۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں