سینئر صحافی و تجزیہ کار حامد میر کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے متعلق تہلکہ خیز انکشافات

اسلام آباد (پی این آئی)حکومت کو موجودہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی ذات میں جمہوریت کا نجات دہندہ نظر آ رہا ہے۔ریٹائرمنٹ سے قبل جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اپنے نئے اختیارات کا کچھ ایسا استعمال کریں گے کہ پارلیمنٹ میں آئینی ترمیم کیلئے دوتہائی اکثریت کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی۔

۔سینئر صحافی و تجزیہ کار حامد میر نے روزنامہ ” جنگ ” میں شائع ہونیوالے اپنے کالم بعنوان “پارلیمنٹ کی کمال توہین” میں تہلکہ خیز انکشاف کر دیا ۔ کالم میں حامد میر نے لکھا کہ زیادہ پرانی بات نہیں،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ صاحب نےفرمایا تھا کہ صدارتی آرڈی ننس جاری کرنا پارلیمنٹ کی توہین کے مترادف ہے۔ چیف جسٹس صاحب کےیہ تاریخی الفاظ مجھے اس لئے یاد آ رہے ہیں کہ صدر آصف علی زرداری نے ایک اور آرڈی ننس جاری کردیا ہے اور اس آرڈی ننس کے تحت چیف جسٹس کے وہ اختیارات بحال کردیئے گئے ہیں جو پارلیمنٹ نے گزشتہ سال ایک قانون بنا کر ختم کردیئے تھے۔

یہ کمال بھی صرف اسلامی جمہوریہ پاکستان ہی میں ہوسکتا ہے جہاں پارلیمنٹ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ 2023ء کے نام سے ایک قانون منظور کرتی ہے اور حکومت کے ترجمان ہمیں بتاتے ہیں کہ اس قانون کے ذریعے چیف جسٹس کے آمرانہ اختیارات ختم کردیئے گئے ہیں کیونکہ اس سے پہلے بنچوں کی تشکیل کا اختیار صرف چیف جسٹس کےپاس تھا لیکن اس نئے قانون کےتحت بنچوں کی تشکیل کا اختیار سپریم کورٹ کے3 سینئرترین ججوں کے پاس ہوگا۔ جب اس قانون کوسپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا تو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سمیت اعلیٰ عدالت کے ججوں کی اکثریت نے پارلیمنٹ سے منظور کئے جانے والے قانون کو برقرار رکھنے کے حق میں فیصلہ دیا۔ سپریم کورٹ نے اس قانون کےخلاف دائر کی جانے والی درخواستوں کو اکتوبر 2023ء میں مسترد کیا تھا لیکن ستمبر 2024ء میں ایک صدارتی آرڈی ننس کے ذریعے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کی نفی کی جا رہی ہے۔

قابل غور نکتہ یہ ہے کہ گزشتہ سال جب یہ قانون پارلیمنٹ سے منظور کرایا گیا تو شہبا زشریف وزیر اعظم اور اعظم نذیر تارڑ وزیر قانون تھے۔ آج جب پارلیمنٹ کے منظور کردہ قانون کی صدارتی آرڈی ننس کے ذریعے خلاف وزری کی جارہی ہے تو شہباز شریف وزیر اعظم اور اعظم نذیر تارڑ وزیر قانون ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ جب سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ 2023ء منظور ہوا تو عمر عطا بندیال چیف جسٹس تھے اور ان کی ذات میں اس وقت کی حکومت کو ایک جوڈیشل ڈکٹیٹر نظر آتا تھا۔ آج جب اس قانون کو تبدیل کرنے کیلئےصدارتی آرڈی ننس جاری کروایاگیا تو حکومت کو موجودہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی ذات میں جمہوریت کا نجات دہندہ نظر آ رہا ہے۔ اب ذرا یاد کرتے ہیں کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے صدارتی آرڈی ننس کے اجرا کوپارلیمنٹ کی توہین کب اور کہاں قرار دیا تھا؟

تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں