پی ٹی آئی سیاسی جماعت تھی اور ہے، 12 جولائی کے فیصلے میں کوئی ابہام نہیں، الیکشن کمیشن ذمے داری فوری پوری کرے، ذمے داری پوری کرنے میں ناکامی اور انکار کے آئینی اور قانونی نتائج ہو سکتے ہیں، نشست اسی سیاسی جماعت کی تصور کی جائے گی جس کا سرٹیفکیٹ آیا۔
سپریم کورٹ میں مخصوص نشستوں کے کیس میں الیکشن کمیشن اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی درخواستوں پر 8 رکنی بینچ نے وضاحت جاری کردی ہے۔اکثریتی فیصلہ دینے والے ججوں نے وضاحت جاری کرتے ہوئے کہا کہ 12 جولائی کے فیصلے میں کوئی ابہام نہیں ہے۔عدالت کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کا 12 جولائی کا شارٹ آرڈر بہت واضح ہے، الیکشن کمیشن نے اس حکم کو غیر ضروری طور پر پیچیدہ بنایا ہے، فیصلے پر عملدرآمد نہ کرنے کے سنگین نتائج ہوں گے۔
سپریم کورٹ کا کہنا ہے کہ الیکشن کمیشن بیرسٹر گوہر کو چیئرمین پی ٹی آئی اور عمر ایوب کو سیکریٹری جنرل تسلیم کرچکا۔مختصر حکم کے پیراگراف 8 میں واضح طور پر اعلان کیا گیا ہے کہ حاصل کردہ نشست فوراً اس سیاسی جماعت کی حاصل کردہ نشست تصور کی جائے گی، کوئی بعد کا عمل اس وقت کے متعلقہ تاریخوں پر ہونے والے معاہدے تبدیل نہیں کر سکتا، طے شدہ حیثیت کے مطابق یہ کامیاب امیدوار پی ٹی آئی کے امیدوار تھے، واضح معاملہ پیچیدہ بنانے، ابہام پیدا کرنے کی کوشش مسترد کی جاتی ہے۔
ججز کی وضاحت میں کہا گیا کہ کمیشن کے ذریعے جاری فہرست محض انتظامی عمل ہے، مقصد تمام متعلقہ افراد کو معلومات اور سہولت فراہم کرنا ہے، قانونی طور پر پابند ذمہ داری پوری کرنے میں ناکامی، انکار کے نتائج ہوسکتے ہیں، الیکشن کمیشن ذمے داری فوری پوری کرے۔سپریم کورٹ کا کہنا ہے کہ الیکشن کمشین تسلیم کر چکا ہے پی ٹی آئی رجسٹرڈ سیاسی جماعت ہے، الیکشن کمشین کا تحریک انصاف ارکان کے سرٹیفکیٹ تسلیم نہ کرنا غلط ہے، الیکشن کمشین کو اس اقدام کے آئینی، قانونی نتائج کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے، سرٹیفکیٹ جمع کروانے والے تمام ارکان تحریک انصاف کے تصور ہوں گے۔
فیصلے کا اطلاق قومی اور صوبائی اسمبلیوں پر بھی ہوگا، الیکشن کمیشن کی کنفیوژن پیدا کرنے کی کوشش کو سخت الفاظ میں مسترد کیا جاتا ہے، واضح کیا جا چکا فیصلے پر عملدرآمد نہ کرنے کے نتائج کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔سپریم کورٹ نے الیکشن کمشین کو فیصلے پر فوری عملدرآمد کرنے کی ہدایت کر دی۔عدالت نے کہا کہ انتخابی نشان سے محرومی کسی سیاسی جماعت کے حقوق ختم نہیں کرتی، پی ٹی آئی سیاسی جماعت تھی اور ہے، انتخابات میں نشستیں بھی حاصل کیں۔سپریم کورٹ کا کہنا ہے کہ الیکشن کمشین کا وضاحت مانگنا دراصل عدالتی فیصلے پر عملدرآمد میں رکاوٹ ڈالنا ہے، الیکشن کمیشن بیرسٹر گوہر علی خان کو تحریک انصاف کا چیئرمین تسلیم کر چکا ہے، پارٹی چیئرمین تسلیم کرنے کے بعد الیکشن کمیشن اپنے مؤقف سے پھر نہیں سکتا۔
عدالت کا کہنا ہے کہ امیدوار تحریک انصاف کے امیدوار ہی تصور کیے جائیں گے، امیدوار تحریک انصاف کی صوبائی، قومی اسمبلی کی پارلیمانی پارٹی کاحصہ ہوں گے۔سپریم کورٹ کی آبزرویشن نے حالیہ الیکشن ایکٹ کی ترمیم کو بھی تحریک انصاف اراکین کی حدتک غیر مؤثر کردیا۔عدالت کا کہنا ہے کہ آرڈر میں واضح کر دیا تھا سرٹیفکیٹ جمع کروانے، پارٹی تصدیق پر اراکین پی ٹی آئی کے تصور ہوں گے، بعد میں آنے والا کوئی ایکٹ اراکین کی حیثیت ختم نہیں کر سکتا، ارکان کا معاملہپاسٹ اینڈ کلوز” ٹرانزیکشن تصور ہوگا، تمام اراکین آئینی، قانونی تقاضوں کیلئے تحریک انصاف کے ارکان ہی تصور ہوں گے۔مخصوص نشستوں کے کیس میں اکثریتی فیصلہ دینے والے ججز میں جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس اطہر من اللّٰہ، جسٹس عائشہ ملک، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس شاہد وحید، جسٹس عرفان سعادت بھی شامل ہیں۔
یاد رہے کہ 12 جولائی کو سپریم کورٹ نے مخصوص نشستوں کے کیس کا فیصلہ جاری کیا تھا۔سپریم کورٹ نے قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں(پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ) اراکین کی بنیاد پر تخلیق پانے والی خواتین اور اقلیتوں کیلئے مخصوص نشستیں سنی اتحاد کونسل کو دینے کی بجائے دیگر پارلیمانی پارٹیوں کو الاٹ کرنے سے متعلق الیکشن کمیشن / پشاو رہائی کورٹ کے فیصلے کیخلاف دائر کی گئی اپیلوں پر محفوظ کیا گیا فیصلہ جاری کرتے ہوئے الیکشن کمیشن اور پشاور ہائیکورٹ کے فیصلے کو کالعدم قرار دیا تھا۔8 ججوں کے اکثریتی فیصلے میں الیکشن کمیشن کی جانب سے آزاد قرار دینے والے 80 اراکین قومی اسمبلی میں سے 39 اراکین قومی اسمبلی کو پی ٹی آئی کے نامزد امیدوار جبکہ باقی رہ جانے والے 41 اراکین قومی اسمبلی کو آزاد اراکین قرار دیتے ہوئے کہا گیا تھا کہ عدالت کے اس فیصلے کے اجراء کے 15روز کے اندراندر آزاد اراکین بھی الیکشن کمیشن میں اپنی سیاسی جماعت سے تعلق کا حلف نامہ جمع کروائیں اور متعلقہ جماعت کی تصدیق کی صورت میں مذکورہ اراکین قومی اسمبلی بھی اسی جماعت کے امیدوار تصور ہوں گے۔ عدالت نے پاکستان تحریک انصاف کو مخصوص نشستوں کیلئے اہل قرار دیتے ہوئے اسے الیکشن کمیشن میں خواتین اور اقلیتوں امیدواروں کی ترجیحی لسٹ جمع کرنے کی ہدایت کی اور قرار دیا تھا کہ الیکشن کمیشن پی ٹی آئی کی لسٹ کے مطابق ایوان میں موجود نمائندگی کے تناسب سے پی ٹی آئی کو اقلیتوں اور خواتین کی مخصوص نشستیں الاٹ کرے۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں