وزیراعظم کے سیاسی مشیر رانا ثنا اللہ نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے گرفتارکیے گئے اراکین کی میں رات دیرگئے تک پارلیمنٹ موجودگی پر سوالات اٹھا دیے۔
جیو نیوز کے پروگرام آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ میں بات چیت کرتے ہوئے رانا ثنا اللہ نے کہا کہ پارلیمنٹ کی عمارت کوئی آماجگاہ نہیں ہے، دفتری اوقات کے بعد سکیورٹی عملے کے علاوہ کسی کو وہاں ٹھہرنے کی اجازت نہیں ہے۔رانا ثنا نے سوال اٹھایا کہ سکیورٹی کے عملے نے خلاف معمول پارلیمنٹیرینز کو وہاں پر رکنے کیوں دیا؟ اسپیکر کو پارلیمنٹ میں ان اراکین کی موجودگی کے بارے میں کیوں نہیں بتایا؟
انہوں نے کہا کہ کل تک تحریک انصاف کے رہنما کہہ رہے تھے کہ اگر غلط تقریر کی ہے تو مقدمہ درج کریں، اب مقدمہ درج ہوگیا ہے تو اس میں گرفتاری بھی ہوگی اور عدالت میں ٹرائل بھی ہوگا۔انہوں نے کہا کہ جس بات کا دعویٰ پی ٹی آئی اراکین کررہے ہیں وہ سی سی ٹی وی میں موجود نہیں ہے۔رانا ثنا اللہ نے مزید کہا کہ گرفتار کیے گئے اراکین کا پروڈکشن آرڈر جاری ہوگیا ہے، وہ قومی اسمبلی میں پیش ہوکر ثابت کریں کہ کالے ڈالے اور کالی گاڑیوں نے اُنہیں پارلیمنٹ کے اندر سے گرفتار کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ثابت کرنے کی ذمہ داری ان لوگوں پر ہے جنہوں نے یہ الزام لگایا ہے، انکوائری رپورٹ سامنے آنے کے بعد وزیراعظم کی جو ذمہ داری بنتی ہے وہ اس کو پورا کریں گے اور اسپیکر حکومت کو جو مشورہ دیں گے، اُس کے مطابق ایکشن لیں گے۔پروگرام کے دوران گفتگو کرتے ہوئے پی ٹی آئی رہنما علی محمد خان کا کہنا تھا کہ جس طرح سے پارلیمنٹ پر دھاوا بولاگیا، کالی گاڑیوں میں نقاب پوش لوگ آئے ، بجلی بندکی اور ایک ایک دروازہ کھٹکھٹا کر ہمارے اراکین اسمبلی کو گرفتا ر کیا گیا ، یہ عمل وفاقی حکومت کی اجازت سے ہی ہوسکتا ہے۔انہوں نے کہا کہ وزیراعظم شہباز شریف اگر پارلیمنٹ پر ہونیوالے حملے کے پیچھےنہیں ہیں تو کیا وہ اس بات پر استعفا دیں گے کہ ان کے ماتحت وزیر داخلہ اور آئی جی اسلام آباد کو یہ نہیں پتا کہ حملے کے پیچھے کون ہے ؟ان کا کہنا تھا کہ رانا ثنا اللہ یہ کہہ کر وزیراعظم کو نہیں بچاسکتے کہ پارلیمنٹ ہاؤس پر اُن کا اختیار نہیں ہے، پارلیمنٹ ہاؤس کی حدود میں داخل ہونے والے لوگ کون تھے ۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں