تمیز سے بات کرو، قومی اسمبلی میں علی محمد خان کی خواجہ آصف کو وارننگ

قومی اسمبلی میں وزیرِ دفاع خواجہ آصف کی تقریر کے دوران پی ٹی آئی کے رہنما علی محمد خان نے شور شرابہ کیا۔

خواجہ آصف نے ایوان میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کل یا پرسوں کے واقعے پر تفصیلی بحث ہو گئی ہے، جب آپ کہیں کہ بانیٔ پی ٹی آئی نہیں تو پاکستان نہیں تو کل جیسا ردِعمل آنا تھا۔اُنہوں نے کہا کہ میں کل کے واقعے کی توجیح پیش نہیں کر رہا، کل صحافیوں نے بھی احتجاج کیا، پی ٹی آئی کو انہیں جا کر منانا پڑا، پاکستان کے وجود اور آئینی حیثیت کو چیلنج کیا گیا۔

وزیرِ دفاع نے کہا کہ پہلی بار صحافی اور پارلیمان نے ایک ساتھ ایک پارٹی کے خلاف کل احتجاج کیا، یہ کہتے ہیں کہ ہمیں فوج سے بات کرنی ہے، جب آپ لانچ فوج کے ذریعے ہوں تو آپ بار بار اس طرف جائیں گے، یہ سیاسی ڈی این اے کا نقص ہے۔اُنہوں نے کہا کہ 9 مئی کو فوجی ٹارگٹس کو ڈھونڈ کر نشانہ بنایا گیا، آپ پی ٹی آئی کی جدوجہد اقتدار میں آنے کے بعد اور جانے کے بعد دیکھیں،کل کا واقعہ کچھ واقعات کا تسلسل ہے، 9 مئی کو سارے ہدف فوج کے چنے گئے اور توہین کی گئی۔

خواجہ آصف نے کہا کہ ان لوگوں نے مجھ پر آرٹیکل 6 لگایا، یہ رنگ بازی کر رہے ہیں، بس اور کچھ نہیں کر رہے، ان کی خواتین خواتین ہیں، باقی خواتین نہیں ہیں۔اُنہوں نے کہا کہ میرا رہنما اپنے پورے خاندان کے ساتھ گرفتار ہوا، مجھ پر آرٹیکل 6 لگایا تو علی محمد خان نے کابینہ میں اس فیصلے کی حمایت کی۔وزیرِ دفاع نے کہا کہ آپ کرنل شیر خان کا مجسمہ توڑ کر اس کی توہین کریں پھر 6 ستمبر کو جا کر فاتحہ خوانی کریں تو اس سے بڑی منافقت نہیں ہو سکتی، جنابِ اسپیکر! میں نے ان کی دم پر پیر رکھا ہے تو یہ چیخ رہے ہیں۔یہ بات سنتے ہی علی محمد خان اور شاندانہ گلزار اپنی نشستوں پر کھڑے ہو گئے۔ خواجہ آصف نے شاندانہ گلزار سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ میں آپ کے منہ نہیں لگنا چاہتا، پھر آپ کہیں گی میں خاتون ہوں۔علی محمد خان نے خواجہ آصف سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ تمیز سے بات کرو۔خواجہ آصف نے علی محمد خان کو جواب دیتے ہوئے کہا کہ میں نے تمیز آپ سے سیکھی ہے۔وزیرِ دفاع نے مزید کہا کہ ان کا لیڈر باجوہ سے ملنے کے لیے ڈگی میں بند ہو کر گیا تھا، آج 2 دن ہو گئے ہیں اور 13 دن رہ گئے، ہم انتظار کر رہے ہیں کہ علی امین گنڈاپور لشکر لے کر آئے۔اُنہوں نے کہا کہ پشتونوں پر کسی کی اجارہ داری نہیں ہے، کل رات کا ردِعمل واقعات کے تسلسل کا نتیجہ ہے، یہ کہاں کا آئین ہے کہ ایک سیاسی جماعت کہتی ہے ہمیں صرف فوج سے بات کرنی ہے۔

تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں

close