اپوزیشن لیڈر عمر ایوب کا کہنا ہے کہ میری آج عدالت میں پیشی ہے، کسی وقت بھی گرفتار ہو سکتا ہوں۔
عمر ایوب نے یہ بات امین الحق کی زیرِ صدارت قومی اسمبلی قائمہ کمیٹی برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی کے اجلاس میں کہی۔اُنہوں نے کہا کہ میری آج عدالت میں پیشی ہے اور میں وہ پیشی چھوڑ کر یہاں آیا ہوں کیونکہ آج قومی نوعیت کا معاملہ زیرِ غور ہے۔وزیرِ مملکت آئی ٹی شزہ فاطمہ اور چیئرمین پی ٹی اے میجر جنرل (ر) حفیظ الرحمٰن بھی اس اجلاس میں شریک تھے۔چیئرمین قائمہ کمیٹی نے ملک میں انٹرنیٹ سروسز میں خلل اور سوشل میڈیا سروس کی بندش پر نوٹس لیا تھا اور چیئرمین پی ٹی اے میجر جنرل (ر) حفیظ الرحمٰن کو طلب کر رکھا تھا۔
امین الحق اور ارکانِ قائمہ کمیٹی نے پی ٹی سی ایل حکّام کی عدم شرکت پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہم بھی یہاں اپنے کام چھوڑ کر آئے ہیں اور یہ اہمیت نہیں دیتے۔ارکانِ قائمہ کمیٹی نے کہا کہ ان سے لکھوایا جائے کہ صدر یا سی ای او اجلاس میں کیوں نہیں آئے؟جس کے بعد چیئرمین قائمہ کمیٹی امین الحق نے پی ٹی سی ایل کے سی ای او و چیئرمین کو آئندہ اجلاس میں طلب کرتے ہوئے کہا کہ آئندہ اجلاس میں اس وضاحت کے ساتھ آئیں کہ اس اجلاس میں کیوں نہیں آئے؟چیئرمین پی ٹی اے نے اجلاس کے دوران ملک میں انٹرنیٹ سروسز متاثر اور سوشل میڈیا سروس میں خلل پر بریفنگ دی۔
سید امین الحق نے کہا کہ عوام کو بتایا جائے انٹرنیٹ سروس کیوں متاثر ہیں؟ فائر وال لگا ہے یا نہیں لگا، یہ بھی بتایا جائے؟ اس حوالے سے پی ٹی اے میڈیا کو آگاہی دے تاکہ عوام کو آگاہ کیا جاتا رہے۔چیئرمین پی ٹی اے میجر جنرل (ر) حفیظ الرحمٰن نے بتایا کہ وزیرِ مملکت نے پریس کانفرنس کی تھی اس میں وجوہات بتائی گئی تھیں، 7.5 ٹیرا بائٹ ڈیٹا ایک کیبل سے پاکستان آتا ہے، سب میرین کنسورشیم نے آگاہ کیا کہ سب میرین کیبل میں فالٹ سے انٹر نیٹ متاثر ہےاُنہوں نے بتایا کہ 7 فائبر آپٹک کیبل پاکستان آتی ہیں جن میں سے ایک خراب ہے، 27 اگست تک کا وقت ہے، کیبل ٹھیک ہوجائے گی مگر اس صورتحال میں وی پی این کے استعمال سے مقامی انٹرنیٹ ڈاؤن ہوا۔رکن قائمہ کمیٹی نے سوال کیا کہ کیا وی پی این کا استعمال غیر قانونی ہے؟جس پر چیئرمین پی ٹی اے نے قانون سے متعلق معلومات کے لیے متعلقہ افسر کو بلا لیا۔
سید مصطفیٰ کمال نے سوال پوچھا کہ اس بریک ڈاؤن سے کتنا نقصان ہوا ہے، پی ٹی اے کو کوئی اندازہ ہے؟ علی قاسم گیلانی نے پوچھا کہ فری لانسرز کو کتنا نقصان ہوا؟اس کے ساتھ ہی ارکانِ قائمہ کمیٹی نے چئیرمین پی ٹی اے پر سوالات کی بوچھاڑ کر دی۔حفیظ الرحمٰن نے بتایا کہ 2006ء میں ویب مینجمنٹ سسٹم موجود تھا، مارچ 2019ء میں فائر وال کا نظام منظور ہوا تھا، 2019ء میں اس سسٹم کی اپ گریڈیشن شروع کی گئی، اسے پہلے ڈبلیو ایم ایس کہتے تھے لیکن مارچ 2019ء میں نیشنل فائر وال سسٹم کانام دے دیا گیا۔اُنہوں نے کہا کہ اس سسٹم کو کہیں فائروال یا کوئی اور نام دیا جاتا ہے مگر ہمارے ہاں اسے ویب مینجمنٹ سسٹم کہتے ہیں۔جس پر عمر ایوب نے کہا کہ مودی سرکاری بھارت میں کیا کر رہی ہے؟ یوکرین، بنگلا دیش، میانمار، یوگنڈا میں اظہارِ رائے پر پابندی نہیں ہے، ہمیں اس سسٹم کی ضرورت کیوں پیش آئی؟اُنہوں نے کہا کہ ویب مینجمنٹ سسٹم یا فائر وال سسٹم سوشل میڈیا اکاؤنٹس اور مواد کو متاثر کرتا ہے تو آپ تو بلاک کر دیں گے مگر اس کے اثرات کیا ہوں گے؟عمر ایوب نے ایک اور سوال کیا کہ کیا انٹیلیجنس ایجنسی کے پاس یہ قابلیت ہے کہ وہ خود مداخلت کر کے چیزوں کو بلاک کر دے؟چیئرمین پی ٹی اے نے کہا کہ آپ میری بات کی غلط تشریح کر رہے ہیں، یہ سسٹم آپ کے دورِ حکومت میں ہی لایا گیا تھا، اکتوبر 2020ء میں ایک خط نکلا کہ اس پر عمل درآمد کیا جائے، آپ یہ بات حکومت سے پوچھیں کیونکہ ہمیں تو جو حکم ملے گا ہم اس پر عمل کریں گے۔اس موقع پر قائمہ کمیٹی کے ایک لیگی رکن ذوالفقار بھٹی نے کہا کہ بانیٔ پی ٹی آئی نےکہا تھا کہ قومی سلامتی کے لیے ٹیلی فون ٹیپ ہونے چاہئیں۔اُنہوں نے کہا کہ آپ کی حکومت نے خود فائر وال لگانے کی اجازت دی اور اب آپ ایجنسیوں پر الزامات لگا رہے ہیں، آپ ملکی اداروں پر ایسےالزام لگا رہے ہیں جیسے وہ دشمن کے ایجنٹ ہوں۔جس پر عمر ایوب نے کہا کہ میں پارلیمنٹ کو مضبوط بنانے کی بات کر رہا ہوں، پارلیمنٹ مضبوط ہو گی تو ہم مضبوط ہوں گے۔چیئرمین پی ٹی اے نے کہا کہ حکومت گزشتہ حکومت کے فیصلے کو آگے بڑھا رہی ہے، یہ معلوم نہیں کہ فائر وال کی وجہ سے سسٹم سست ہوا۔یہ بات سن کر عمر ایوب نے کہا کہ آپ کو یہ بھی بتانا چاہیے کہ سابق وزیرِ اعظم نے فائر وال لگانے سے انکار کیا تھا، یہ ویب منیجمنٹ سسٹم کی ضرورت اب اس شدت سے کیوں محسوس ہوئی ہے؟ اگر کل کو کوئی سیکشن آفیسر کوئی آرڈر نکالے تو آپ کچھ سب بلاک کر دیں گے، کیا انٹیلیجنس ایجنسیوں کے پاس صلاحیت ہے کہ آپ کے سسٹم کو بائی پاس کر سکیں؟حفیظ الرحمٰن نے کہا کہ میں نے ایسا نہیں کہا کہ سابق وزیرِ اعظم نے انکار نہیں کیا، 22 اکتوبر 2020ء کے کابینہ کے کمنٹ تھے کہ فائر وال لگائیں اور پی ٹی اے وفاقی کابینہ کی ہدایات پر عمل درآمد کا پابند ہے، فائر وال کی اپ گریڈیشن پہلی بار نہیں ہو رہی اور نہ کوئی نئی چیز لگ رہی ہے۔چیئرمین پی ٹی اے نے کہا کہ وی پی این ہم بند ہی نہیں کر سکتے، اس بارے میں بھی غلط خبریں گردش کرتی رہی ہیں کہ وی پی این بند ہو رہا ہے۔چیئرمین قائمہ کمیٹی امین الحق نے کہا کہ ایسی کسی بھی پابندی کے خلاف ہیں جس سے ترقی کا عمل رکتا ہو۔عمر ایوب نے امین الحق کو تجویز دی کہ ایک بریفنگ رکھیں جس میں پی ٹی اے سمیت تمام آئی ٹی حکّام شریک ہوں، ایک بات کا جواب نہیں دیا گیا کہ تمام انٹیلیجنس ایجنسیوں کے پاس صلاحیت ہے کہ پی ٹی اے یا وزارتِ آئی ٹی سے پوچھے بنا فون ٹیپ کر سکیں؟ اگر ایسا ہو رہا ہے تو کس قانون کے تحت ہو رہا ہے؟ لوگوں کو کس کرائیٹیریا پر ٹارگٹ کیا جاتا ہے؟ ہمارے علاوہ کتنے لوگوں کو ٹارگٹ کیا جا رہا ہے؟ان سوالوں کا جواب دیتے ہوئے چیئرمین پی ٹی اے نے کہا کہ حکومت نے اس سے متعلق نوٹیفکیشن ایشو کیا ہے۔قائمہ کمیٹی انفارمیشن ٹیکنالوجی نے آئی ٹی سیکٹر میں نقصانات کا تخمینہ مانگ لیا۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں