آبادی میں اضافے کے حوالے سے رپورٹ میں ایشیائی ترقیاتی بینک کا کہنا ہےکہ پاکستان کو بڑھتی ہوئی آبادی کےباعث نئے شہر اور مستقل پالیسی بنانے کی ضرورت ہے۔
ایشیائی ترقیاتی بینک نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ آبادی میں تیزی سے اضافے کے باعث شہروں میں بنیادی سہولتوں کا فقدان بڑھے گا، بڑھتی آبادی کے باعث لوگوں کا رہن سہن غیر معیاری ہو رہا ہے، شہروں میں منصوبہ بندی کے بغیر غیر قانونی و بلڈنگ کوڈز کی خلاف ورزی ہو رہی ہے،جس سے شہروں میں ماحول اور نظام میں خرابی پیدا ہو رہی ہے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ زرعی زمینوں پربڑھتی ہوئی انکروچمنٹ کے باعث مستقبل میں غذائی قلت کا خدشہ ہے، اکنامک پاور ہاؤس، تعلیم، رہن سہن کے بہتر مواقع فراہم کرنے کے لیے پالیسی بنانا ہو گی۔
اے ڈی بی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گزشتہ سال کے دوران پاکستان کو زرِ مبادلہ کے ذخائر میں کمی اور تاریخی مہنگائی کاسامنا تھا، 2018ء میں کراچی کا جی ڈی پی میں حصہ 15 فیصد اور ٹیکسز میں 55 فیصد تھا، پاکستان کے 10 بڑے شہر وفاقی ٹیکسز میں 95 فیصد کنٹری بیوشن کر رہے ہیں، اٹھارہویں ترمیم کے بعد صوبے اور لوکل گورنمنٹس شہروں میں سروسز و مینجمنٹ کو بہتر نہیں بنا سکیں۔رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 2022ء اور 2010ء کے سیلاب کے باعث پاکستان کی معیشت کو 40 ارب ڈالرز کا نقصان ہوا، ان سیلابوں کے باعث 3700 افراد کی اموات ہوئیں، 2015ء کے دوران کراچی میں ہیٹ ویو کے باعث 1200 افراد کی اموات ہو ئیں۔ایشیائی ترقیاتی بینک کا رپورٹ میں کہنا ہے کہ کلائمیٹ چینج کےباعث پاکستان کو جنوبی ایشیاء میں سب سے زیادہ معاشی نقصان ہوا، بڑھتی ہوئی آبادی کے باعث پاکستان کو سالانہ 3 لاکھ 50 ہزار نئے گھروں کی ضرورت ہے، آبادی کی سیٹلمنٹ کے لیے مجموعی طور پر 1 کروڑ نئے گھروں کی ضرورت ہے۔
اے ڈی بی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2040ء تک پانی کی کمی کا سامنا کرنے والے ممالک میں پاکستان 23 ویں نمبر پر آ سکتا ہے، شہری علاقوں میں 43 فیصد آبادی کو تا حال بہترین پانی کی عدم فراہمی جیسے مسائل کا سامنا ہے، شہری علاقوں میں تقریباً 18 فیصد آبادی بنیادی حفظانِ صحت کے اقدامات سے محروم ہے۔رپورٹ کے مطابق شہری علاقوں میں آبادی کو پینے کے لیے طلب سے نصف مقدار میں پانی فراہم کیا جا رہا ہے، کراچی میں پینے کا تقریباً 35 سے 58 فیصد پانی چوری اور لیکیج کے باعث ضائع ہو رہا ہے، پنجاب، بلوچستان اور خیبر پختون خوا میں پانی کی اسٹوریج سمیت متعدد مسائل ہیں۔اےڈی بی کا رپورٹ میں کہنا ہےکہ پاکستان کو 10 سال، 20 سال اور 30 سال شہر کاری کا نیا پلان بنانے کی ضرورت ہے، میونسپل سروسز بہتر بنانے کے لیے پرائیویٹ پارٹنر شپ ایگریمنٹس کی ضرورت ہے، صوبائی حکومتوں کو لوکل گورنمنٹ ایکٹ پر عمل درآمد کے لیے اقدامات کی ضرورت ہے۔رپورٹ میں ایشیائی ترقیاتی بینک نے بتایا ہے کہ 2017ء کی مردم شماری کے بعد آبادی بڑھنے کی رفتار میں تیزی آئی ہے، 1998ء سے 2017 تک آبادی بڑھنے کی رفتار 2.4 فیصد، 1981ء سے 1998ء تک 2.7 فیصد تھی، 1972ء سے 1981ء تک آبادی بڑھنے کی رفتار 3.1 فیصد، 1961ء سے 1972ء تک 3.6 فیصد تھی۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 1 کلو میٹر کی حدود میں اوسطاً 621 افراد ہونے کے باعث پنجاب دنیا کے گنجان آباد علاقوں میں شامل ہے، پنجاب 1 کلو میٹر کی حدود میں زیادہ آبادی رکھنے کے لحاظ سے تیسرے نمبر پر ہے۔ایشیائی ترقیاتی بینک نے اپنی رپورٹ میں تجویز دی ہے کہ پاکستان میں موجودہ اربن ڈیولپمنٹ ماڈل کی جگہ نیا نظام بنانے کی ضرورت ہے۔واضح رہے کہ گزشتہ روز ایشیائی ترقیاتی بینک (اے ڈی بی) نے پاکستان میں شہری آبادی میں اضافے سے متعلق رپورٹ جاری کی تھی۔اے ڈی بی کے مطابق پاکستان کی شہری آبادی میں سالانہ 3.65 فیصد شرح سے اضافہ ہو رہا ہے، 2030ء تک پاکستان کی شہری آبادی 99.4 ملین ہو جائے گی۔ایشیائی ترقیاتی بینک کا کہنا تھا کہ 2023ء کی مردم شماری کے مطابق پاکستان کی شرح آبادی 2.55 فیصد ہے اور شہری آبادی 93.8 ملین ہو چکی ہے،1981ء کے بعد شہری آبادی 4 گنا بڑھ چکی ہےایشیائی ترقیاتی بینک نے پاکستان میں پائیدار شہری ترقی کے لیے سمت متعین کرنے پر زور دیتے ہوئے کہا تھا کہ آبادی کے مقابلے پاکستان کی معاشی حالت غیر یقینی ہے۔اے ڈی بی نے یہ بھی کہا تھا کہ 2020ء سے 2021ء کے دوران آبادی بڑھنے کی رفتار میں کمی آئی تھی۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں