اسلام آباد(پی این آئی) عالمی ڈیجیٹل میڈیا کمپنیوں پر مشتمل ’ایشیاءانٹرنیٹ کولیشن‘ (اے آئی سی)نے پاکستان میں ’ڈیٹا لوکلائزیشن‘ پر متعدد سوالات اٹھاتے ہوئے کہا ہے کہ ڈیٹا پروٹیکشن بل ملک میں بیروزگاری، کاروباری نقصان اور معاشی ترقی میں سست روی کا سبب بن سکتا ہے۔
اے آئی سی نے اپنی رپورٹ ’ڈیٹا لوکلائزیشن اِن پاکستان‘ میں تخمینہ لگایا ہے کہ اگر مئی 2023ءکے مسودے پر مبنی پرسنل ڈیٹا پروٹیکشن بل 2024ءمیں نافذ العمل کیا جاتا ہے تو 2025ءمیں لیبر کی پیداواری صلاحیت میں 14.7فیصد کمی آئے گی اور اس کے نفاذ کے ایک سال کے اندر ملکی جی ڈی پی کو ساڑھے 16ارب ڈالر کا نقصان پہنچ سکتا ہے۔ ڈیٹا پروٹیکشن بل کے نفاذ سے 32لاکھ نوکریاں ختم ہونے کا بھی اندیشہ ہے۔ اے آئی سی کی طرف سے اپنی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ موجودہ پالیسی اور ریگولیٹری منظرنامے میں پاکستان میں کچھ ڈیٹا لوکلائزیشن کی ضرورت ہے تاہم پالیسی میں اس طرح کے اقدامات کو مزید سخت بنانے کی گنجائش باقی رہے گی۔
مثال کے طور پر ڈیٹا پروٹیکشن بل کے موجودہ مسودے کو متعارف کرانے سے ڈیٹالوکلائزیشن سے متعلق ریگولیٹری منظرنامے میں ایک اہم تبدیلی آئے گی۔ پرسنل ڈیٹا پروٹیکشن بل کے تحت تشکیل دیا جانے والا کمیشن وسیع اختیارات کا حامل ہے اور وہ مفاد عامہ یا پاکستان کی قومی سلامتی جیسی مبہم شرائط کی بنیاد پر ذاتی ڈیٹا کی منتقلی کی اجازت دینے سے انکار کر سکتا ہے۔
ایک آئی ٹی کمپنی نے ڈیٹا لوکلائزیشن کے نتیجے میں ہوسٹنگ کے اخراجات میں 70فیصد اضافے کا تخمینہ لگایا ہے۔ ڈیٹا لوکلائزیشن کی وجہ سے سائبر سکیورٹی خطرات میں بھی اضافہ ہو سکتا ہے۔اس کے علاوہ آئی ٹی /آئی ٹی ای ایس شعبوں کی سٹریٹجک پوزیشننگ ان قوانین سے متاثر ہو سکتی ہے، جس کے نتیجے میں سرمایہ کاری اور ان شعبوں کی ترقی پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں