اسلام آباد (پی این آئی) وفاقی وزیر بین الصوبائی وابطہ رانا ثناء اللہ نے کہا ہے کہ نوازشریف کی جنرل باجوہ سے نہ کبھی کوئی ملاقات ہوئی اور نہ ہی توسیع کی پیشکش کی، محمد زبیر کبھی نوازشریف کے قریبی نہیں رہے، ان کی بات اندازوں پر مبنی ہے، محمد زبیر ہی بتا سکتے کہ اب بیان کیوں دیا جبکہ ان دنوں جب باتیں ہوتی تھیں تو وہ تردید کرتے رہے۔
انہوں نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جب سے افغانستان کی سائیڈ سے سکیورٹی کے ایشو درپیش ہیں ،یہ 30، 40سال پر محیط لمبا عرصہ ہے، ہر بار یہ چیلنج اپنی نئی نوعیت کے حساب سے پاکستان کو درپیش رہا ہے، پاکستان کی سکیورٹی ایجنسیز جو پاکستان کے دفاع کی ذمہ دار ہیں، انہوں نے اس چیلنج کو بڑی کامیابی کے ساتھ سامنا کیا اور حل بھی کیا ہے۔ اب بھی چیلنج ہے لیکن ہماری فورسز پوری طرح بہادری دلیری کے ساتھ اس کا سامنا کررہی ہیں ، ہمارے جوان افسر جام شہادت نوش کررہے ہیں، اور دہشتگردوں کو جہنم واصل بھی کررہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ چین کا پاکستان کے ساتھ تعلق یا جس طرح کا لگاؤ ہے اس کیلئے دوستی کا لفظ بھی پورا نہیں پڑ رہا، وہ ہر طرح سے پاکستان کی مددترقی چاہتے ہیں ان کا کوئی مطالبہ نہیں، لیکن ان کے ورکر جو پاکستان میں کام کررہے ہیں ، ان کی زندگیوں کی حفاظت کوئی غلط بات نہیں۔ ان کی حفاظت ہماری ذمہ داری ہے۔محسن نقوی بطور وزیرداخلہ اور بطور چیئرمین پی سی بی اپنے معاملات چلانے کی پوری کوشش کررہے ہیں، اور ہم ان کے ساتھ ہیں۔سکیورٹی چیلنجز کے ساتھ نبردآزماہوا جائے گا۔
وزارت داخلہ اور پی سی بی دونوں ایک مصروف محکمے ہیں ، وہ دونوں کو چلانے کی بھرپور کوشش کررہے ہیں۔پیپلزپارٹی کے ساتھ تمام گلے شکوے دور ہوگئے ہیں، کوئی بنیادی مطالبات نہیں تھے، روزمرہ کے کام ، ارکان اسمبلی کے فنڈز،یہ مسائل ہیں، ہر کسی رکن کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ اپنے حلقوں کیلئے فنڈز حاصل کرے۔ گلے شکوے دور ہوگئے بجٹ منظور ہوجائے گا۔پیپلزپارٹی کے جائز مطالبات ہیں۔ یہ شکوے شکایات ہوتے رہیں گے، اسی موقعے پر اتحادی ہی نہیں ہمارے ارکان بھی مطالبات کرتے ہیں۔رانا ثناء اللہ نے کہا کہ محمد زبیر کی جنرل باجوہ کو توسیع دینے کی بات اندازوں پر مبنی ہے، کہتے ہیں میرا خیال ہے کہ ملاقاتیں ہوئی ہوں گی، پوری ذمہ داری سے کہتا ہوں کہ جنرل باجوہ کی میاں نوازشریف سے کوئی ملاقات نہیں ہوئی، میاں نوازشریف نے جنرل باجوہ کو کبھی توسیع کی پیشکش نہیں کی۔ محمد زبیر کبھی میاں نوازشریف کے قریبی نہیں رہے۔
محمد زبیر بتا سکتے کہ اب انہوں نے بیان دینے کو کیوں اہم سمجھا جبکہ ان دنوں جب باتیں ہوتی تھیں تو وہ تردید کرتے رہے۔ پاکستان میں ہماری جو لیڈرشپ تھی وہ تحریک عدم اعتماد کے وقت جنرل باجوہ سے ملتی رہی کیونکہ ہمیں خدشہ تھا کہ اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے ہمارے ووٹوں کو خراب نہ کیا جائے، اس وقت عمران خان بھی اسٹیبلشمنٹ کو حمایت کیلئے زور لگا رہے تھے۔ یہ تو چائے کی پیالی میں طوفان لانے والی بات ہے، محمد زبیر کے بیان میں کونسی بات ہے کہ سپریم کورٹ کو نوٹس لینا چاہئے، میرا نہیں خیال کہ سپریم کورٹ ان معاملات کو دیکھے گی۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں