اسلام آباد (پی این آئی)اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے سماعت کے دوران ریمارکس دئیے کہ لاہور ہائیکورٹ کا نام آگیا تو کیا تفتیش نہیں ہوگی ؟،چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے آئی جی اسلام آباد کو 22 مئی کو ذاتی حیثیت میں طلب کر لیا،اسلام آباد ہائی کورٹ میں تھانہ کھنہ کی حدود میں لاہور ہائی کورٹ کی گاڑی کی ٹکر سے شہری کی موت سے متعلق کیس میں2 سال گزرنے کے بعد تفتیش مکمل نہ ہونے اور ملزم کی عدم گرفتاری کے خلاف کیس کی سماعت ہوئی۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ عامر فاروق نے استفسار کیا کہ پولیس کو 2 سال سے پتا نہیں چل رہا گاڑی کا ڈرائیور کون تھا۔چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ کا کہنا تھا کہ اگر حادثہ میرے یا آپ کے ساتھ ہوا ہوتا تو بھی ایسے ہی چل رہا ہوتا ؟ جس پر وکیل اسلام آباد پولیس نے بتایا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ ڈائریکشن دے کہ لاہور ہائی کورٹ کا رجسٹرار تفصیلات دے۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ عامر فاروق نے اس موقع پربرہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کیا آپ ہوش میں ہیں؟ کیا آپ میںتھوڑی سی بھی شرم ہے؟ آپ کو لائسنس کس نے دیا؟ کیا میںاسلام آباد پولیس کو ختم کر دوں؟ پھر ہائی کورٹ ہی ہر معاملہ کی تفتیش کرے؟چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ دئیے کہ گاڑی وزیر کی ہو، اسلام آباد یا لاہور ہائی کورٹ کی ہو، تفتیش تو ہونی ہی ہے۔چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے اسستفسار کیا کہ پولیس کہہ رہی ہے کہ لاہور ہائی کورٹ کی تفتیش کرنے کیلئے میں اجازت دوں؟بعد ازاں اسلام آباد ہائی کورٹ نے آئی جی اسلام آباد کو ذاتی حیثیت میں طلب کرتے ہوئے کیس کی مزید سماعت 22 مئی تک ملتوی کردی۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں