ازخود نوٹس کیس؛ جو تنقید کرنی ہے ہمارے منہ پر کریں، سپریم کورٹ نے کس کس کو طلب کر لیا؟

اسلام آباد(پی این آئی)ازخود نوٹس کیس؛ جو تنقید کرنی ہے ہمارے منہ پر کریں، سپریم کورٹ نے کس کس کو طلب کر لیا؟سپریم کورٹ نے ازخودنوٹس کیس میں فیصل واوڈا اور مصطفیٰ کمال کو طلب کرلیا، عدالت نے فیصل واوڈا ور مصطفیٰ کمال سے 2ہفتے میں جواب طلب کرلیا،حکم نامہ میں کہا گیا ہے کہ بادی النظر میں توہین عدالت ہوئی ہے،فیصل واوڈا ور مصطفیٰ کمال اپنے بیانات کی وضاحت کریں،عدالت نے پیمرا سے پریس کانفرنس کی ویڈیو ریکارڈنگ اور ٹرانسکرپٹ طلب کر لیا اور سماعت 5جون تک ملتوی کردی،

چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیتے ہوئے کہاکہ جو تنقید کرنی ہے ہمارے سامنے کریں، باپ کے گناہ کی ذمہ داری بیٹے کو نہیں دی جا سکتی۔۔۔۔سپریم کورٹ میں سینیٹر فیصل واوڈا کی پریس کانفرنس پر ازخودنوٹس کی سماعت ہوئی،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 3رکنی بنچ نے سماعت کی،جسٹس عرفان سعادت اور جسٹس نعیم اختر افغان بنچ میں شامل ہیں،ایڈیشنل اٹارنی جنرل سپریم کورٹ میں پیش ہوئے،چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا آپ نے وہ پریس کانفرنس سنی، کیا یہ توہین عدالت ہے یا نہیں؟ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہاکہ مجھے جو ویڈیو ملی اس میں متعلقہ حصوں کی آواز میوٹ تھی،چیف جسٹس نے کہاکہ توہین عدالت کے قانون کو پڑھتے ہیں، اداروں میں نقص ہوسکتا ہے، کسی اور کا بوجھ برداشت نہیں کر سکتے،اگر آپ ادارے کو انڈر مائن کریں گے تو یہ درست نہیں،میرے خلاف بہت زیادہ باتیں ہوئیں جن کو میں نے نظرانداز کیا،ہم ہر روز اچھا کام کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔۔۔چیف جسٹس نے فیصل واوڈا کی پریس کانفرنس کی تفصیلات طلب کرلیں، چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ معاشرے میں سب سے زیادہ کمزور وہ ہے جو بندوق اٹھاتا ہے،اپنی ذات نہیں بلکہ ادارے کیلئے حلف لیا ہے،مہذب معاشرے میں توہین عدالت کا قانون استعمال نہیں ہوتا۔چیف جسٹس پاکستان نے استفسار کیا کہ کیا چیخ و پکار کرکے آپ ادارے کی خدمت کررہے ہیں؟

جس کے پاس دلائل ہوں اس کو اس سب کی ضرورت نہیں،ادارے عوام کے ہوتے ہیں ، ان کو بندما کرنا ملکی خدمت نہیں،اگر میں نے کوئی غلط کام کیا ہے تو بتائیں، تنقید کریں،ایک کمشنر صاحب نے پریس کانفرنس کی، سب نے چلا دی،کمشنر نے کہاکہ میں نے الیکشن میں دھاندلی کروائی،بھائی بتا دیں کہ میں نے دھاندلی کیسے کروائی،تنقید کی ایک حد ہونی چاہئے، ان کے بعد ایک اور صاحب آ گئے جن کا نام مصطفیٰ کمال ہے،مصطفیٰ کمال نے بھٹو کا ذکر کیا،دونوں افراد پارلیمنٹ کے ارکان ہیں، ایوان میں بولتے،پارلیمان میں بھی ججز کے کنڈکٹ پر بات نہیں کی جا سکتی،باپ کے گناہ کی ذمہ داری بیٹے کو نہیں دی جا سکتی،میڈیا میں بھی اچھے اور برے صحافی موجود ہیں،ہمیں پتہ ہے ہماری عدلیہ کون سے نمبر پر ہے، گالیاں دینا مناسب نہیں،اسی عدالت نے مارشل لا کی بھی آئینی توثیق کی ہے،مارشل لا کی توثیق کرنے والوں کا کبھی دفاع نہیں کروں گا، کہا جاتا ہے کہ بات کے گناہوں کا ذمہ دار بیٹا نہیں ہو سکتا، اگر ایک ایم اے غلط ہے تو سارے پارلیمان کو غلط نہیں کہہ سکتے،

سپریم کورٹ نے فیصل واوڈا اور مصطفیٰ کمال کو طلب کرلیا،عدالت نے فیصل واوڈاور مصطفیٰ کمال سے 2ہفتے میں جواب طلب کرلیا۔حکم نامہ میں کہا گیا ہے کہ بادی النظر میں توہین عدالت ہوئی ہے،فیصل واوڈا ور مصطفیٰ کمال اپنے بیانات کی وضاحت کریں۔۔۔چیف جسٹس نے کہاکہ جو تنقید کرنی ہمارے سامنے کریں۔مہذب معاشرے میں توہین عدالت کے نوٹس نہیں ہوتے کیونکہ وہاں لوگ ایسی باتیں نہیں کرتے،گالی گلوچ سب رپورٹ کرتے ہیں اچھی باتیں کوئی رپورٹ نہیں کرتا،پریس کلب جا کے فیصل واوڈا نے تقریر کی اس کے بعد مصطفیٰ کمال آ گئے،ذوالفقار علی بھٹو کو ہم زندہ تو نہیں کرسکتے لیکن غلطی تو مان لی،ہر چیز پر حملہ نہ کریں، آپ ادارے کو تباہ کررہے ہیں۔اگر میں نے غلط کیا ہے تو سزا دیگر ججز کو نہیں دی جا سکتی،مارشل لا کی توثیق کرنے والوں کا کبھی دفاع نہیں کروں گا، گالم گلوچ کرنے والوں کی سب کوریج کرتے ہیں،کوئی پریس کلب میں اچھی بات کرے تو کوریج نہیں ہوتی،شخصیات پر تنقید کریں، اداروں پر کیوں کرتے ہیں؟میرے دائیں بائیں والے ساتھیوں پر کیوں بات کرتے ہیں۔۔۔۔

تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں