جنرل باجوہ اور جنرل فیض کیخلاف مقدمہ درج کرنے کی درخواست پر اسلام آباد ہائیکورٹ میں کارروائی شروع

اسلام آباد (پی این آئی ) جنرل ریٹائرڈ قمر جاوید باجوہ اور جنرل ریٹائرڈ فیض حمید کے خلاف اندراج مقدمہ کی درخواست سماعت کیلئے مقرر کردی گئی۔

تفصیلات کے مطابق ریٹائرمنٹ کے بعد قانونی رکاوٹ توڑنے اور مختلف ایونٹس کو غلط بیان کرنے پر جنرل ریٹارڈ باجوہ، جنرل ریٹائرڈ فیض حمید اور دیگر کے خلاف اندراج مقدمہ کی درخواست کل اسلام آباد ہائی کورٹ میں سماعت کے لیے مقرر کی گئی ہے، اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق شہری عاطف علی کی درخواست پر سماعت کریں گے۔بتایا گیا ہے کہ 25 مارچ کو وکیل درخواست گزار راجہ رضوان عباسی کی عدم دستیابی کے باعث سماعت بغیر کارروائی ملتوی ہوئی تھی، شہری نے جنرل ریٹائرڈ باجوہ ، جنرل ریٹائرڈ فیض حمید و دیگر کے خلاف ایف آئی اے میں مقدمہ اندراج کی درخواست دائر کر رکھی ہے، 25 مارچ کو شہری نے جنرل ر قمر جاوید باجوہ اور جنرل ر فیض حمید کیخلاف مقدمہ درج کرنے کی درخواست میں شہری نے کیس بغیر کاروائی ملتوی کرنے کی استدعا کی تھی۔بتایا جارہا ہے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ نے جنرل ریٹائرڈ قمر جاوید باجوہ اور جنرل ریٹائرڈ فیض حمید ریٹائرمنٹ کے بعد قانونی رکاوٹ توڑنے اور غلط بیانی کا کیس آج سماعت کیلئے مقرر کیا تھا، عدالت کی جانب سے ایف آئی اے میں مقدمہ اندراج کی درخواست سماعت کیلئے مقرر کی گئی۔

اس ضمن میں اسلام آباد ہائیکورٹ نے ایف آئی اے، قمر جاوید باجوہ اور فیض حمید کو نوٹسز جاری کیے تھے، اس کے علاوہ عدالت کی جانب سے صحافی جاوید چوہدری اور شاہد میتلا اور پیمرا کو بھی نوٹسز جاری کیے گئے، ریٹائرمنٹ کے بعد قانونی رکاوٹ توڑنے اور غلط بیانی کے کیس میں شہری نے قمر جاوید باجوہ ، فیض حمید اور دیگر کے خلاف مقدمہ اندراج کی درخواست دی ہوئی ہے۔دوسری طرف جنرل ریٹائرڈ قمر جاوید باجوہ سے متعلق پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنماء حنیف عباسی نے نام لیے بغیر وزیر دفاع خواجہ آصف پر تنقید کردی، انہوں نے کہا کہ ایک آدمی کہتا تھا ’مجھے تو واٹس ایپ پر جتوایا گیا اب وہ اُنہی کے خلاف بات کرتا ہے، اس سے قد نہیں بڑھے گا۔ اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے حنیف عباسی نے کہا کہ اب مولانا فضل الرحمان اور ہماری پارٹی کے ایک لیڈر باجوہ پر تنقید کر رہے ہیں، جب کہ پہلے کہتے تھے باجوہ نے واٹس ایپ پر الیکشن جتوا دیا، اخلاقی جرات کرتے تو اس وقت بولتے جب وہ عہدے پر تھے، مجھے تو اس وقت زیادہ تکلیف ہوئی تھی لیکن میں اس وقت نہیں بولا تو اب کیوں بولوں۔

تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں