سپریم کورٹ نے گرفتاریوں سے روک دیا

اسلام آباد(پی این آئی) سپریم کورٹ نے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی ای) کی جانب سے صحافیوں کو جاری نوٹسز سے متعلق کیس کی سماعت کرتے ہوئے 2 اپریل تک وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی ای) کو صحافیوں کو گرفتار کرنے سے روک دیا۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے مقدمے کی سماعت کی، پریس ایسوسی ایشن کے وکیل بیرسٹر صلاح الدین عدالت میں پیش ہوئے۔ اپنی دلائل کا آغاز کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی ای) پریوینشن آف الیکٹرانک کرائمز ایکٹ (پیکا) کے غلط استعمال کی عادی ہو چکی ہے۔انہوں نے جسٹس اطہر من اللہ کے ہائی کورٹ کے فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ پیکا سیکشن 20 کی ایک جز کو کالعدم قرار دے چکی ہے۔ چیف جسٹس نے دریافت کیا کہ کیا اسلام آباد ہائی کورٹ کا یہ رپورٹڈ فیصلہ ہی بیرسٹر صلاح الدین نے بتایا کہ صرف مختصر حکمنامے میں اس سیکشن کو کالعدم کیا گیا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ کیا اس کا تفصیلی فیصلہ بھی آیا تھا پریس ایسوسی ایشن کے وکیل کا کہنا تھا کہ مجھے نہیں لگتا تفصیلی فیصلہ آیا ہے۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اس فیصلے میں ایک پورا آرڈیننس بھی کالعدم کیا گیا بیرسٹر صلاح الدین نے بتایا کہ وہ ایک نیا آرڈیننس آرہا تھا اس کو کالعدم کیا گیا تھا، چیف جسٹس نے دریافت کیا کہ کیا اس فیصلے کو چیلنج کیا گیا تھا بیرسٹرصلاح الدین نے بتایا کہ میرے خیال میں یہ فیصلہ چیلنج نہیں کیا حتمی ہو چکا ہے۔ بیرسٹر صلاح الدین نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ پرائیویسی میں مداخلت کے نام پر صحافیوں کے خلاف کارروائی کی جاتی ہے، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ غلط استعمال تو بہترین قسم کے قانون کا بھی ہو جاتا ہے، آپ پرائیویسی کو کوالیفائی کیسے کریں گی کیا کوئی آپ کی تصاویر آپ کے کمرے یا واش روم میں بنا سکتا ہی مجھے لگتا ہے اس پر آپ بھی کہیں گے ایسا نہیں ہو سکتا، یہ ہتک عزت کا معاملہ نہیں ہے پرائیویسی کا رہ جاتا ہے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے بتایا کہ جسٹس اطہر من اللہ کے ہائی کورٹ والے فیصلے میں پرائیویسی پر بات نہیں کی گئی ہے، آپ چاہتے ہیں ہم 184 /3 میں سنتے ہوئے اس کی تشریح کریں کیا آپ کے بچے کی کوئی تصویر لے تو آپ اجازت دیں گی بچہ پارک میں بھی ہو تو کیا آپ اس کی اجازت دیں گی بیرسٹر صلاح الدین نے کہا کہ یہ معاملہ سیکشن 24 ، سائبر اسٹاکنگ سے متعلق ہے، یہ اس میں شامل ہے۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت کسی شق کو کالعدم کر سکتی ہے یا اس کی تشریح کر سکتی ہے۔پریس ایسو سی ایشن کے وکیل نے اپنے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ نوازشریف اور بانی پی ٹی آئی کے دور میں صحافیوں ک یخلاف اس قانون کا استعمال ہوا، موجودہ دور میں پھر اسی معاملے پر آپ کے سامنے ہوں۔چیف جسٹس نے وکیل ست استفسار کیا کہ آپ ایف آئی اے کو تعلیم تو دے سکتے ہیں کہ اس قانون کا مقصد کیا ہے۔

وکیل نے بتایا کہ ایف آئی اے صحافی کو ایسے گرفتار نہیں کر سکتی، ایف آئی اے خود سے مقدمہ درج نہیں کر سکتی۔ بیرسٹر صلاح الدین نے ججز مخالف مہم پر صحافیوں کو بھیجے نوٹس پڑھ کر سناتے ہوئے کہا کہ شکایت کا مدعی ایف آئی اے کا اپنا افسر ہے۔چیف جسٹس نے مزید دریافت کیا کہ کیا اس معاملے میں قانون کی خلاف ورزی کی گئی یہ تو ضابطہ فوجداری کی دفعہ 160 کے تحت نوٹس ہیں، یہ تو ایف آئی آر کے اندراج سے پہلے کا نوٹس ہے، ایسا نوٹس تو کل کو مجھے مل سکتا ہے، آپ کیوں خود سے تصور کر رہے ہیں وہ ایف آئی آر درج کریں گی کئی بار اوپر سے بہت پریشر آجاتا ہے، افسر پریشر ہٹانے کے لیے نوٹس دے دیتا ہے مگر ایف آئی آر نہیں کاٹتا، گرفتار بھی نہیں کرتا، اس نوٹس میں تو وہ بطور گواہ بھی کسی کو بلا سکتے ہیں، اگر کوئی چیز آپ غیر قانونی دکھائیں گے تو ہی اسے ہم کالعدم کریں گے، ہم ایک قانونی عمل کو کالعدم نہیں کریں گے۔ اس پر بیرسٹر صالح الدین نے کہا کہ نوٹس کے ساتھ مقدمہ کی مکمل تفصیل فراہم کرنا ضروری ہے، مجھے اگر پولیس اسٹیشن بلایا جاتا ہے تو پہلے وجوہات بتانا ہوں گی۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آپ کہتے ہیں طلب کیے جانے سے پہلے ایف آئی آر لازمی ہے، ہو سکتا ہے وہ افسر ایف آئی آر سے پہلے ہی آپ کو حقائق کی تصدیق کے لیے بلا رہا ہو۔جسٹس نعیم اختر افغان نے ریمارکس دیے کہ ایف آئی آر کے اندراج کا معاملہ پہلے آتا ہے، طلبی بعد میں، چیف جسٹس نے کہا کہ کیا پھر آپ یہ چاہتے ہیں نوٹس 160 کی جگہ سیکشن 157 کا ہونا چاہیی اس پر بیرسٹر صلاح الدین نے بتایا کہ اگر ایف آئی آر درج ہو چکی ہو تو ہی نوٹس آسکتا ہیبعد ازاں عدالت نے آئندہ سماعت تک ایف آئی اے کو صحافیوں کی گرفتاری سے روکتے ہوئے کیس کی سماعت 2 اپریل تک ملتوی کر دی۔

تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں